میانمار میں ہمیں وہ مار دیں گے، ہماری نماز جنازہ بھی نہیں ہوگی: روہنگیا مسلمان

ہم سب مرنے کے لئے تیا ر ہیں لیکن واپس (میانمار)جانے کے لئے تیا ر نہیں، اس سے بہتر ہے کہ ہندوستانی حکومت ہم سب روہنگیا مسلمانوں کو ایک جگہ جمع کرکے مار ڈالے۔ کم ازکم کوئی ہماری نماز جنازہ تو پڑھے گا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

از: ۔ کھیم راج، ظہور حسین

جموں: مرکزی حکومت کی جانب سے 4 اکتوبر کو سات روہنگیا مسلمانوں پر مشتمل ایک گروپ کو میانمار واپس بھیجنے اور ہندوستان میں گذشتہ چند برسوں سے مقیم روہنگیا مسلمانوں کو ان کے ملک واپس بھیجنے کی خبروں نے جموں کے مضافاتی علاقوں میں جھگی جونپڑیوں میں رہائش پذیر قریب 6 ہزار روہنگیا پناہ گزینوں کو شدید خوف زدہ کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم یہیں مرنے کے لئے تیار ہیں لیکن میانمار واپس نہیں جانا چاہتے ۔ میانمار واپس بھیجنے سے بہتر ہے کہ حکومت ہندوستان ہم سب کو ایک جگہ جمع کرکے مار دیں۔

35سالہ محمد یو سف نے یو این آئی کو بتایا’ جب سے ہم نے سنا ہے کہ حکومت ہندوستان روہنگیا مسلمانوں کو میانمار واپس بھیجنے کی تیاری میں جٹ گئی ہے،تب سے ہم سب کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں، ہم شدید خوف میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ ہم مرنے کے لئے تیا ر ہیں لیکن واپس (میانمار)جانے کے لئے تیا ر نہیں۔ وہاں ہم کو تڑپا تڑپا کر مارا جائے گا۔ا س سے بہتر ہے کہ ہندوستانی حکومت ہم سب روہنگیا مسلمانوں کو ایک جگہ جمع کرکے مار ڈالے۔ یہاں کم ازکم کوئی ہماری نماز جنازہ تو پڑھے گا ‘۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ میانمار (برما) کی سیکورٹی فورسزاور بنیاد پرست بودھوں کے ظلم وجبرکے شکار روہنگیا مسلمان سنہ 2012 میں وہاں سے ہجرت کرکے جموں کے مضافاتی علاقوں میں آنا شروع ہوئے۔ اس وقت جموں کے مضافاتی علاقوں بشمول نروال ،بھٹنڈی، کریانی تالاب،چھنی اوربڑی برہمنا میں جھگی جونپڑیوں میں مقیم روہنگیا پناہ گزینوں کی تعداد قریب 6 ہزار ہے۔ یہ پناہ گزین یہاں محنت مزدوری کر کے زندگی کے ایام گزار رہے ہیں۔

سرکاری عداد وشمار کے مطابق جموں میں مقیم روہنگیا پناہ گزینوں کی تعداد 5 ہزار 700 ہے۔ جموں میں بی جے پی ، پنتھرس پارٹی، وی ایچ پی ، آر ایس ایس اور مختلف سیاسی، سماجی اور اقتصادی تنظیمیں بالخصوص جموں چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ، ٹیم جموں اور جموں ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن خطہ میں روہنگیائی پناہ گزینوں کی موجودگی کے خلاف ہیں اور اکثر اوقات ان کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کرتی ہیں۔

رواں ماہ 4 اکتوبر کو حکومت ہندوستان نے سات روہنگیا کو میانمار واپس بھیج دیا۔ یہ سنہ 2012 میں غیرقانونی طور پر ہندوستان میں داخل ہوئے تھے اور انہیں حراست میں لیکر آسام کی سینٹرل جیل میں بند رکھا گیا تھا۔ انعام الحق نامی روہنگیا پناہ گزین نے بتایا’ ہم نے میانمار میں اپنے قریبی رشتہ داروں کو کھویا ہے۔ میرے چاچا اور چاچازاد بھائی کو تڑپاتڑپا کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ہم بڑی مشکل سے اپنی جان بچا کر وہاں سے بھاگنے اور سنہ 2012 میں جموں میں پناہ لینے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس وقت ہم محنت مزدوری کر کے بڑی مشکل سے زندگی گذر بسر کررہے ہیں لیکن اوپر والے کا شکر ہے کہ زندہ تو ہیں۔اگر میانمار میں جمہوریت بحال ہو تی ہے اور ہمیں اپنے حقوق مل جاتے ہیں تو ہم خودبخود واپس جائیں گے۔ لیکن ابھی وہاں کے حالات ہمارے لئے سازگار نہیں ہے۔ ہمیں وہاں مارا جائے گا‘۔

ایک 50سالہ خاتون روبینہ نے بتایا ’اپناگھر بارچھوڑکر کون دربدر ہوناچاہتاہے۔ ہم نے مجبوری میں اپنی جان بچانے کی خاطر اپنا گھر بار چھوڑ ا ہے۔ میانمار میں ہمارے گھر جلا دیئے گئے۔ فوجی کاروئیوں میں ہمارے اپنے کئی لوگوں کو موت کے گھات اتارا گیا اور ہماری بہوبیٹیوں کے ساتھ جنسی زیادتیاں کی گئیں۔ اگر ہندوستان بھی واپس میانمار بھیجنا چاہتا ہے تو ہم مر جائیں گے مگر واپس میانمار نہیں جائیں گے

جموں کے مضافات نروال میں مقیم روہنگیا مسلمانوں کی جھگی جو نپڑیوں میں 25اور26نومبر2016 کی درمیانی شب کو پراسرار طور پر آگ لگ گئی جس کی وجہ سے تقریباً 80 جھگی جونپڑیاں خاک کے ڈھیرمیں تبدیل ہو گئیں اور تین بچوں سمیت 4افراد کی جھلسنے سے موت ہو گئی تھی جبکہ پانچ زخمی ہوگئے تھے ۔ رواں برس مارچ میں جموں کی ایک تنظیم ’ٹیم جموں‘ اور جموں چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے جموں میں مقیم روہنگیا پناہ گزینوں کے خلاف اشتہاری مہم چلائی۔

جموں سے شائع ہونے والے چند روزناموں میں صفحہ اول پر ایک صفحے کے اشتہار شائع کئے گئے جن میں شہر میں مقیم روہنگیا پناہ گزینوں کو اہلیان جموں کے لئے خطرہ قرار دیا گیا۔ 4 مارچ کو ٹیم جموں کی جانب سے شائع کرائے گئے اشتہار میں کہا گیا تھا ’روہنگیا پناہ گزینوں کا خطرہ امن پسند جموں واسیوں کے سروں پر منڈلا رہا ہے۔ آیئے جموں کو بچانے کے لئے متحد ہوجاتے ہیں‘۔ اس سے قبل 2 مارچ کو جموں چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی جانب سے یہی متن والا اشتہار چند روزناموں میں صفحہ اول پر شائع کرایا گیا تھا۔

جموں چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے گذشتہ برس کے اپریل میں دھمکی دی تھی کہ ریاستی حکومت نے روہنگیا پناہ گزینوں کو ریاست بدر نہیں کیا تو ہم خود انہیں شناخت کرکے قتل کردیں گے۔ اس بیان پر جموں چیمبر کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ روہنگیا پناہ گزینوں کے خلاف اخبارات میں ٹیم جموں اور جموں چیمبر آف کامرس کی اشتہاری مہم سے قبل پنتھرس پارٹی نے گذشتہ برس کے فروری میں شہر میں چند ہورڈنگز لگائی تھیں جن کے ذریعے پنتھرس پارٹی کے لیڈروں نے روہنگیائی اور بنگلہ دیشی مسلمانوں کو جموں چھوڑنے کے لئے کہا تھا۔ 10 فروری کو جب جموں کے سنجوان ملٹری اسٹیشن ( 36 بریگیڈ فرسٹ جموں وکشمیر لائٹ انفینٹری) پر فدائین حملہ ہوا تو بی جے پی کے مختلف لیڈران بشمول اس وقت کے اسمبلی اسپیکر کویندر گپتا نے اس کے لئے علاقہ میں مقیم روہنگیا پناہ گزینوں کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ ملٹری اسٹیشن پر حملے میں 6 فوجی ، ایک عام شہری اور تین حملہ آور مارے گئے تھے۔

فدائین حملے کے تناظر میں اس وقت کے اسمبلی اسپیکر کویندر گپتا نے اسمبلی کے اندر کہا تھا کہ یہ حملہ علاقہ میں روہنگیا مسلمانوں کی موجودگی کی وجہ سے پیش آیا ۔ ان کا کہنا تھا ’علاقہ میں روہنگیا پناہ گزینوں کی موجودگی ایک سیکورٹی خطرہ بن گیا ہے۔ حملے میں ان پناہ گزینوں کا بھی ہاتھ ہوسکتا ہے‘۔ انہیں اس بیان پر اپوزیشن نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے اراکین کی شدید برہمی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اسمبلی میں اپنے متنازع بیان سے قبل کویندر گپتا نے ملٹری اسٹیشن کے باہر نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ روہنگیا مسلمان پہلے سے ہی شک کے دائرے میں تھے۔

ان شرارتی عناصر نے جھونپڑیوں کی طرف کچھ پوسٹر بھی پھینکے تھے جن پر لکھا تھا کہ روہنگیا پناہ گزینوں کو واپس بھیجا جائے۔ پی ڈی پی ترجمان اعلیٰ محمد رفیع کا کہنا ہے کہ روہنگیا پناہ گزینوں کے خلاف چلائی جارہی نفرت آمیز مہمات پریشان کن اور قابل مذمت ہیں۔ جموں میں اگرچہ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے قریب تین لاکھ رفیوجی بھی رہائش پذیر ہیں، تاہم بی جے پی اور پنتھرس پارٹی انہیں ہر ایک سہولیت فراہم کئے جانے کے حق میں ہیں۔

مرکزی سرکار کی جانب سے گذشتہ برس سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ دائر کیا گیا جس میں روہنگیا مسلمانوں کو ملک کی سلامتی کے لئے سنگین خطرہ قرار دیا گیا۔ تاہم نیشنل کانفرنس کے کارگزار صدر اور ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کا کہنا ہے کہ جموں وکشمیر میں یہ خطرہ مابعد 2014 ء پیش رفت کا پیدا کردہ ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 29 Oct 2018, 4:09 PM