مودی بن گئے بادشاہ!

تصویر نو جیون
تصویر نو جیون
user

ظفر آغا

بادشاہ ہوگئے مودی! چونکئے مت نریندر مودی کا ایک ہی ذاتی خواب ہے اور وہ ہےکہ ان کے ہاتھوں میں اس قدر اقتدار کی قوت ہو کہ کوئی ان کے آگے سر نہ اٹھا سکے اور اگر کوئی ان سے قدمیں بڑا ہو یا ان کے اقتدار پر سایہ فگن ہو تو اس کو راستے کی روڑے کی طرح ہٹا دیا جائے ۔ چند گھنٹےقبل مودی کی کابینہ کی ہونے والی توسیع کا پیغام یہی ہے کہ نریندر مودی اپنے دور حکومت کے تیسرے سال میں بغیر شرکت ملک کے سب سے زیادہ طاقت ور وزیر اعظم ہیں باالفاظ دیگر نریندر مودی اب ہندستان کے وزیر اعظم نہیں بلکہ ملک کے بادشاہ ہیں ۔ پارلیمانی نظام حکومت میں وزیر اعظم اور کابینہ کے ارکان ملک کی نظامت میں برابر کے شریک ہوتے ہیں اسی لیے وزیر اعظم کو اپنی کابینہ میں انگریزی میں First among equalsیعنی اپنے برابر کے افراد کا اولیں فرد کہا جاسکتا ہے اور کابینی طرز نظامت میں ملک کے فیصلے وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان کے مشورروں سے ہوتے ہیں ۔

یعنی پارلیمانی نظامت میں کابینی طرز نظامت کے تحت اقتدار محض وزیر اعظم کا اجارہ نہیں ہونی چاہئے بلکہ اقتدار وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے پاس ہوتا ہے اور اس طرز حکومت میں اقتدار پر جمہوری دباؤ برقرار رہتا ہے کیونکہ مختلف ممبران کابینہ یا وزرا ءاپنے حلقوں کے عوامی مفاد میں وزیر اعظم کے مشورے سے فیصلہ کرتے ہیں یعنی وزیر اعظم کے اقتدار پر ایک طرح کا جمہوری دباؤ رہتا ہے تاکہ وزیر اعظم تانا شاہ نہ بن سکیں۔

بھلا ،نریندر مودی کو یہ کہاں منظور کہ وہ اقتدار میں دوسروں کو شریک کریں مودی مزاجاً تانا شاہ ہیں۔ ان کا ساری زندگی یہی خواب رہا ہے کہ ان کے ہاتھوں میں بے لگام اقتدار کی کمان ہو ۔وہ نفسیاتی طور پرnarcissistہیں۔یعنی وہ خود اپنی شخصیت سے اس قدر متاثر ہیں کہ وہ اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ وہ جو سوچتے ہیں اور جو کرتے ہیں وہ سب سے بہتر ہے اور بس وہی ملک کے مفاد میں ہے یہ فکردراصل جمہوری فکر سے متضاد ہے اور یہ فکر کسی بھی شخص کو تانا شاہی کی طرف مائل کر دیتی ہے۔ ہٹلر سے مودی تک وہ تمام لوگ جو محض خود اپنی ذات کو اپنے ملک اور قوم کے لئے سب سے زیادہ مفید سمجھتے ہیں وہ سب کے سب تانا شاہ ہوتے ہیں۔

مودی نے اپنی تقریر میں اکثر کہا ہے کہ انہوں نے‘ وطن’ کے لئے اپنا گھر بار چھوڑ دیا ، یعنی ان کے نزدیک‘ وطن’ گھر بار سے بھی زیادہ اہمیت رکھتاہے۔ اور یہی آر ایس ایس کا نظریہ ہے تبھی تو آر ایس ایس کے سربراہ سے لیکر نیچے تک سنگھ کا کوئی عہدیدار شادی شدہ نہیں ہوسکتا، مودی نے شادی کی لیکن پھر ایک رات کی بیاہتا دلہن کو چھوڑ کر ایسے گئے کہ پھر مڑ کر اپنی بیاہتا دلہن کا منہ نہیں دیکھا اور پھر بس بقول خود ان کے وہ ‘وطن ’کے ہوگئے۔وہ بھی ایسا‘ وطن ’جس کا خدوخال سنگھ کے ہندوتوا نظریہ پر مبنی ہو یعنی مودی کا وطن نظریاتی طور پر ایک ہندو راشٹر ہی ہوسکتا ہے جس کی جھلک گجرات فسادات سے لیکر موب لنچنگ تک صاف نظر آتی ہے۔ ایک جمہوری طرز نظامت میں ایک ہندوراشٹر ممکن نہیں ہے کیونکہ جمہوریت میں اقتدار کا تصور شرکت کے ساتھ ہے۔ اب مودی کے ل سامنے یہ سوال تھا کہ وہ بغیر شرکت کیسے اقتدار کا استعمال کریں یا کس طرح ایک بادشاہ کا روپ اختیار کریں۔

ابھی چند گھنٹے قبل کابینہ میں ہونے والی پھیر بدل کے ذریعہ مودی نے اپنے سر پر تاج پہن لیا ہے اور وہ باقاعدہ بادشاہ بن گئے ہیں ۔ وہ کیسے!مودی نے سن 2014 میں جب وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا تھا تو راج ناتھ سنگھ ،گڈ گری ،سشماسواراج اور ارون جیٹلی مودی کابینہ میں بلند بالا رتبے کے حامل تھے۔ چونکہ وزیر اعظم دہلی پاور سرکل میں نو سیکھئے تھے اس لئے انہوں نے ان شخصیات کو اہم وزارتیں سونپی اور پھر اان چاروں کو مودی کابینہ کا اہم رکن مانا جانے لگا۔

لیکن مودی جی نے سن 2014 میں جیسےہی کابینہ تشکیل دے دی ویسے ہی خود ان کی ایم اپر میڈیا میں یہ خبریں آنے لگیں کہ راج ناتھ کو خود اپنا سکریٹری چننے کا بھی اختیار نہیں ملا ۔سشما سوراج کے بارے میں یہ واضح کردیا گیا کہ وہ وزیر خارجہ ضرور ہیں لیکن امور خارجہ خود وزیر اعظم طے کرتے ہیں ۔گڈگری ایک اچھے وزیر ضرور ہیں لیکن مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ کے انتخاب سے لیکر اہم سیاسی معاملات مین ان کا لینا دینا کچھ نہیں۔ ہاں ارون جیٹلی کو ان کی انگریزی اچھی ہونے کے سبب میڈیاspaceضرور ملی۔ لیکن وزیر خزانہ ہوتے ہوئے بھی نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسے اہم فیصلے ان کےنہیں بلکہ خود وزیر اعظم کے فیصلے تھے۔ لب ولباب یہ کہ وزیر اعظم نے شروع ہی سے یہ واضح کردیا تھا کہ وہ اپنی کابینہ میںfirst among equals نہیں بلکہ وہ کابینہ میں ‘فرسٹ’(اوّل)بھی وہی ہیں اور لاسٹ(آخر)بھی وہیں ہیں پھر یہ بھی خبریں آئیں کہ مودی کس طرح وزرا ءکو اعتماد میں لئے بغیر سیدھے وزارت کے سکریٹری سے بات کرتے ہیں اور ان کو حکم دیتے ہیں ۔ ارے صاحب! اس کو آپ بادشاہ نہیں تو اور کیا کہیں گے۔

ابھی جو کابینہ میں ردوبدل ہوئی ہے اس سے قبل چوبیس گھنٹے تک سشما ،راج ناتھ ،گڈگری جیسوں کو یہ علم نہیں تھا کہ وہ آیا کا بینہ میں برقرار رہیں گے یا نہیں ۔ تب ہی تو یہ سب گھبرا کر راج ناتھ کے گھر جمع ہوئے۔ مودی نے اب سب پر یہ واضح کردیا کہ کوئی مجھ سے کتنا ہی سینئر کیوں نہ ہو لیکن اب وہ میرے رحم وکرم پر ہے۔ ذرا سی چوں کی اور کابینہ سے باہر، یہ بھی بادشاہت کی علامت ہے کیونکہ غلام بادشاہ کی مرضی کے ہی ہوتے ہیں ۔

پھر نئی مودی کابینہ میں پیوش گوئل، مختار عباس نقوی، نرملاسیتا رمن جیسے جونیئر وزراءکو کابینہ درجہ مل گیا ہے بلکہ نرملاسیتا رمن جیسی معمولی قد والی لیڈر کو وزارت دفاع دے کر مودی نے سینئر لیڈروں کا قد کم کردیا ہے۔ نئے وزراء نہ صرف وزیر اعظم کے اشاروں پر ناچیں گے بلکہ کابینہ کی میٹنگ میں وزیر اعظم جب چاہیں گے ان جو نیئر وزرا کو سینئر وزراءکو ذلیل کرنے کے لیے بھی استعمال کریں گے ۔ یہ بھی بادشاہی دربار کا ہی ایک طریقہ ہوتا ہے جو نریندر مودی نے بطور نئے بادشاہ ہند اختیار کیا ہے۔

یہ تو طے ہے کہ مودی بادشاہ ہوگئے ہیں۔ ملک کا آئین پہلے ہی ہندوتوا نظریہ کا اسیر ہوچکا ہے ۔ اب جمہوری طرز نظامت ترک کر ملک مودی شاہی دور میں داخل ہورہا ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا!۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 03 Sep 2017, 5:08 PM