’صحافیوں کو بولنے اور لکھنے پر جیل میں نہیں ڈالا جا سکتا‘زبیر کی گرفتاری پر جرمنی کا بیان

آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کی گرفتاری پر جرمن وزارت خارجہ نے بیان دیا ۔ ہندوستان نے جرمن کے بیان کو مسترد کر دیا ہے ۔

فائل تصویرآئی اے این ایس
فائل تصویرآئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

محمد زبیر کی گرفتاری پر جرمن وزارت خارجہ نے ہندوستانی جمہوریت پر سوال اٹھائے ہیں اور ہندوستان نے جرمن کے اس بیان کو مسترد کر دیا ہے۔ ہندوستانی سفارت خارجہ کے ترجمان اروند باگچی نے کہا ہے کہ محمد زبیر کا معاملہ ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے اور یہ عدالت میں زیر غور ہے ۔ انہوں نے کہا کہ معاملہ کیونکہ عدالت میں زیر غور ہے اس لئے اس پر مجھ سمیت کسی کو بھی کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہئے۔ انہوں نے جرمن وزارت خارجہ کے بیان پر کہا کہ ان کو صحیح معلومات نہیں ہے اورتبصرہ غیر مفید ہے۔

واضح رہے اس سے قبل جرمن وزارت خارجہ نے ایک سوال کے جواب میں بیان دیا تھاکہ ’’ ہندوستان خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے۔ ایسے میں ہندوستان سے آزادی اظہار اور پریس کی آزادی جیسی جمہوری اقدار کی توقع کی جا سکتی ہے۔ پریس کو ضروری آزادی دی جانی چاہیے۔ ہم آزادی اظہار کے لیے پرعزم ہیں۔ ہم دنیا بھر میں آزادی صحافت کی حمایت کرتے ہیں۔ آزادی صحافت بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اور اس کا اطلاق ہندوستان پر بھی ہوتا ہے۔ آزاد رپورٹنگ کسی بھی معاشرے کے لیے ضروری ہے۔ صحافت پر پابندی لمحہ فکریہ ہے۔ صحافیوں کو بولنے اور لکھنے پر جیل میں نہیں ڈالا جا سکتا‘‘۔


جرمن وزارت خارجہ نے کہا، ’’ہمیں ہندوستان میں ہونے والی اس گرفتاری کی اطلاع ہے۔ نئی دہلی میں ہمارے سفارت خانے کی اس پر نظر ہے ۔ ہم اس معاملے پر یورپی یونین کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں۔ یورپی یونین کی ہندوستان کے ساتھ انسانی حقوق پر بات چیت ہے۔ اس میں اظہار رائے اور پریس کی آزادی شامل ہے۔‘‘

واضح رہے وہاں کے براڈکاسٹر ڈی ڈبلیو کے چیف ایڈیٹر رچرڈ واکر نے جرمن وزارت خارجہ کے ترجمان سے پوچھا تھا کہ جرمنی آزادی صحافت کے حوالے سے آواز اٹھاتا ہے اور صحافیوں کی کہیں بھی گرفتاری کی مخالفت کرتا ہے۔ لیکن ہندوستان کے حوالے سے اس معاملے میں فرق کیوں ہے؟ جرمنی ہندوستان پر سخت موقف اختیار کیوں نہیں کر رہا؟


اس پر جرمن وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ’’ میں یہ نہیں کہوں گا کہ وقت پر اس کی تنقید نہیں کی۔ میں آزادی اظہار اور آزادِ صحافت کے حوالے سے ہمیشہ آواز اٹھاتا رہا ہوں۔‘‘ (انپٹ بشکریہ بی بی سی اردو)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔