ہندوستان اور عُمان جامع اقتصادی شراکت داری کے قریب، خلیجی تعلقات میں نئے دور کا آغاز

ہندوستان اور عمان جامع اقتصادی شراکت داری معاہدہ کرنے جا رہے ہیں، جس سے ٹیرِف میں کمی، توانائی و سرمایہ کاری میں تعاون اور خلیجی ممالک سے تجارتی تعلقات میں نمایاں اضافہ ہوگا

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر / اے آئی</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: ہندوستان اور عمان اس ماہ ایک جامع اقتصادی شراکت داری معاہدہ (سی ای پی اے) پر دستخط کرنے والے ہیں، جس میں اشیا، خدمات، سرمایہ کاری اور افرادی قوت کی نقل و حرکت شامل ہوگی۔ آئی اے این ایس کی رپورٹ کے مطابق، اس معاہدے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تجارتی و اقتصادی تعاون کو نئی بلندیوں تک پہنچانا ہے، جبکہ اس کے خلیجی خطے میں وسیع تر اثرات مرتب ہونے کی توقع ہے۔

معاہدے کے تحت ہندوستان کو عمان کی منڈی تک ٹیرف فری رسائی حاصل ہوگی، جس سے توانائی، سرمایہ کاری اور افرادی قوت کے شعبوں میں قریبی تعاون ممکن ہو سکے گا۔ اس کے ساتھ ہی یہ معاہدہ خلیجی ممالک کی سرمایہ کاری کو ہندوستان کے اسٹریٹجک انفراسٹرکچر منصوبوں جیسے بندرگاہوں، صنعتی راہداریوں اور لاجسٹکس ہب کی طرف راغب کرے گا۔

ٹیرف کی کمی سے ہندوستانی برآمدات جیسے لوہا اور اسٹیل، الیکٹرانکس، کپڑا، پلاسٹک، آٹو موٹیو پرزے اور مشینری مزید مسابقتی ن جائیں گی۔ فی الوقت ان اشیا پر پانچ فیصد ڈیوٹی عائد ہے، جو معاہدے کے بعد ختم ہو جائے گی۔ یہ شعبے ’میک ان انڈیا‘ کے مقاصد سے ہم آہنگ ہیں اور بڑے پیمانے پر صنعتوں کے فروغ اور روزگار کے مواقع فراہم کریں گے۔

معاہدے سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار (ایس ایم ای) بھی مستفید ہوں گے کیونکہ انہیں خلیجی منڈیوں تک بلا رکاوٹ رسائی ملے گی۔ اس کے علاوہ، ہندوستان عمان کے بندرگاہ ’دقم‘ میں شراکت داری کر سکے گا، جس سے بحری رابطوں کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔


بات چیت کے دوران ایک اہم نکتہ عمان کی ’عمانیزیشن‘ پالیسی رہا، جس کے تحت نجی کمپنیوں کو کم از کم کوٹے کے مطابق عمانی شہریوں کو ملازمت دینی ہوتی ہے۔ ہندوستان نے اپنے 480000 سے زائد بڑے تارکین وطن کارکنوں کے تحفظ کے لیے واضح استثنیٰ پر زور دیا، تاکہ مستقبل میں کسی پالیسی تبدیلی سے ان پر منفی اثر نہ پڑے۔

عمان ہندوستان کے لیے خام تیل، مائع قدرتی گیس (ایل این جی) اور کھاد کا ایک معتبر سپلائر ہے۔ معاہدے کے نتیجے میں ان درآمدات پر ٹیرف کم ہونے سے ہندوستانی ریفائنریوں، بجلی گھروں اور کسانوں کے اخراجات میں کمی آئے گی، جس سے توانائی کی سلامتی میں استحکام اور قیمتوں میں اچانک اضافے کے خطرات کم ہوں گے۔