اردو کے بغیر ہندوستان کا تصور ادھورا: منیش سسودیا

اردو اکادمی، دہلی کی جانب سے منعقدہ چھ روزہ ’جشن وراثت اردو‘ کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر۔ آخری دن محبان اردو کی کثیر تعداد میں شرکت۔

تصویر محمد تسلیم
تصویر محمد تسلیم
user

محمد تسلیم

’’جشن وراثت اردو تقریب میں فنکاروں کی نمائندگی اور طلبا و طالبات کی پیشکش لاجواب رہی۔ آئندہ سال اس پروگرام کو مزید بہتر طریقے سے پیش کیا جائے گا۔ اس تقریب نے ثابت کر دیا کہ اُردو کبھی مٹنے والی نہیں اور اردو زبان کے بغیر ہندوستان کا تصور ادھورا ہے۔‘‘ یہ باتیں دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا نے چھ روزہ ’جشن وراثت اردو‘ تقریب کے آخری دن یعنی 15 نومبر کو کناٹ پلیس واقع سنٹرل پارک میں کہیں۔ طلبا و طالبات کے درمیان انعامات کی تقسیم کرنے کے موقع پر منیش سسودیا نے یہ بھی کہا کہ ’’اردو کبھی ختم نہیں ہونے والی۔ یہ اسی طرح پھلتی پھولتی رہے گی۔ نوجوانوں کا اس طرح کے پروگراموں میں شرکت کرنا خوش آئندہ ہے اور اردو کے فروغ کے لیے ان نوجوانوں کو حکومت کی جانب سے ہر ممکن تعاون کیا جائے گا۔‘‘

دوپہربارہ بجے جشن وراثت اردو کے چھٹے دن کا آغاز قصہ ’قصہ پہیلیوں کا‘ سے ہوا جسے ٹیلنٹ گروپ نے پیش کیا۔ اس گروپ میں معصوم بچوں نے بہترین فنکاری کا ثبوت دیا۔ناظرین نے ان بچوں کی خوب حوصلہ افزائی کی۔دراصل یہ گروپ پہلے دن سے ہی کسی ایک اہم موضوع پر قصہ کی شکل میں اپنی فنکاری کا ثبوت دے رہا ہے۔الگ الگ موضوع پر بلاناغہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو تیار کرنا کسی بھی طور آسان کام نہیں ہے، لیکن ان بچوں نے اپنی محنت اور لگن سے خود کو اس کے لیے تیار کیا۔ناظرین نے ان بچوں کی اداکاری اور فنکاری کو خوب سراہا۔اس کے معاً بعد دہلی کی مختلف جامعات کے طلبا کے درمیان مباحثہ کا انعقاد کیا گیا۔ اس مباحثے میں کل تین ٹیموں نے حصہ لیا۔ یہ حصہ اس اعتبار سے بہت دلچسپ رہا کہ جشن وراثت اردو میںیہ اپنی نوعیت کا مختلف پروگرام تھا۔ ادب اور سماج کے موضوع پر دلچسپ مباحثے سے لوگ محظوظ ہوئے۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے، جس پر اردو کے اہم ناقدین نے قلم اٹھایا، ان میں احتشام حسین اورپروفیسرمحمد حسن سر فہرست ہیں۔ پروگرام کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر جاوید حسن نے انجام دیے۔اس مباحثے میں جج کے فرائض ڈاکٹر ابو بکرعباد اور ڈاکٹرشفیع ایوب نے ادا کیے۔انعامات کے اعلان سے پہلے دونوں جج صاحبان نے مباحثے کے تعلق سے اہم گفتگوکی۔اس مباحثے میں انعام ٹیم کو نہیں دیا گیا، بلکہ انفرادی انعام دیا گیا۔ مباحثے میںوسیم احمد علیمی(جامعہ ملیہ اسلامیہ)، خبیب احمد(جامعہ ہمدرد)، محمد اشرف (جواہر لال نہرو یونیورسٹی) خطیب الرحمن (جامعہ ملیہ اسلامیہ)کو بالترتیب اول، دوم، سوم اور حوصلہ افزائی کے انعام کا حقدار قرار دیا گیا۔ محفل غزل کے تحت سیف علی خاں(دہلی) نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔جلسہ تقسیم انعامات میں ان طلبا کو چیک،شیلڈ اور سرٹیفیکیٹ سے نوازا گیا، جنھوں نے غزل سرائی،امنگ پینٹنگ اور بیت بازی میں حصہ لیاتھا اوران میں سے جنھیں اول ،دوم، سوم اور حوصلہ افزائی انعام کا مستحق قرار دیا گیاتھا۔ یہ انعام دہلی کے نائب وزیر اعلی جناب منیش سسودیا، اردواکادمی دہلی کے سابق وائس چیئر مین پروفیسر خالد محموداور اردو اکادمی، دہلی وائس چیئر مین پروفیسر شہپرر سول کے دست مبارک سے دیا گیا۔ اس کے بعد صوفی محفلیں منعقد ہوئیں۔ جس میں پہلی صوفی محفل گریش سدھوانی (ممبئی)نے اپنی خوبصورت آوازاور کلام سے محفل کو اور بھی پر کشش بنا دیا، اس کے بعدصوفی بینڈ(ممبئی)میں ایم آئی ایف تپس نے اپنے فن کا اس طرح سے جوہر دکھایا کہ لوگوں پر وجد طاری ہوگیا۔ظاہر ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا مختلف پروگرام تھااور اس کا تعلق براہ راست عقیدت سے ہے، اس لیے بھی لوگوں نے اس صوفی بینڈ سے خوب لطف لیا۔ شام ڈھلتے ڈھلتے صوفی محفل کے تحت فلمی دنیا کے معروف موسیقاراور مختلف موسیقی کے مقابلے کے جج جاوید علی(ممبئی)نے اپنی آواز کا وہ جادو بکھیراکہ جس سے سامعین مسحور ہوگئے اور کناٹ پلیس سینٹرل پارک کی فضا کا ایک دلکش نظارہ دیکھنے کو ملا۔

اردو کے بغیر ہندوستان کا تصور ادھورا: منیش سسودیا

آخر میں میں ایک شاندارکل ہند مشاعرہ کاانعقاد کیا گیا جس کی صدارت معروف شاعر جناب اظہر عنایتی نے کی۔ اس مشاعرہ کی نظامت کے فرائض معروف شاعر اور ناظم مشاعرہ جناب معین شاداب نے انجام دیے۔ انھوں نے اردو کو محبت کی زبان قرار دیتے ہوئے مشاعرے کی نظامت بہت دلکش انداز میں کی۔ اس مشاعرے میں راحت اندوری، راجیش ریڈی، شعیب نظام، شکیل اعظمی، مختار یوسفی، عزم شاکری، فاروق جائسی، شرف نانپاروی، نسیم نکہت اورشبینہ ادیب جیسے شعرا نے شرکت کی۔ قارئین کے لئے کچھ منتخب اشعار پیش خدمت ہیں:

وہ محبت تو محبت کی نظر جیسی ہے

یہ جو بکھری ہوئی دلی ہے گھر جیسی ہے (راحت اندوری)

---

اس راستے میں جب کوئی سایا نہ پائے

یہ آخری درخت بہت یا د آئے گا (اظہر عنایتی)

---

جسے کسی منزل پہ ٹھہر نا ہی نہیں

سانسوں کی مالا کو بکھرنا ہی نہیں

یوں جماکئے جاتا ہے زمانہ حیا ت

جیسے کبھی انسان کو مرنا ہی نہیں (فاروق جائسی)

---

دارو کا ہے بیمار شفا مانگ رہا ہے

مے خانے میں پہنچا ہے دوا مانگ رہاہے

دیکھ کر باپ کو مے خانے میں بیٹے نے کہا

گھر کی بربادی کے آثار نظر آتے ہیں (مختار یو سفی)

---

سوچتے تھے بعد اس کے جی نہیں پائیں گے ہم

آج تک زندہ ہیں ہم جیسے ہوا کچھ بھی نہیں (نسیم نکہت)

شعرا نے سامعین کے جذبات کی قدردانی میں کوئی کمی نہیں چھوڑی اور سامعین نے بھی شعرا کوخوب دادو تحسین سے نوازا۔ جشن وراثت اردو کے چھٹے اور آخری دن مختلف معزز شخصیات کے علاوہ ادب و ثقافت سے دلچسپی رکھنے لوگ بڑی تعداد میں شریک ہوئے ۔

قابل ذکر ہے کہ ’جشنِ وراثتِ اردو‘ 10 نومبر سے 15 نومبر تک کناٹ پلیس کے سنٹرل پارک میں بہت کامیاب سے منعقد ہوا اور آخری دن مسز انڈیا (برطانیہ)موہینی شری نواسن، رضوانہ شہپر اور شکیلہ حیات کے علاوہ گورننگ کونسل کے ممبران نے بھی اس ترقیب میں شرکت کی۔اس کے علاوہ مختلف معزز شخصیات اور زبان و ادب، تہذیب وثقافت سے دلچسپی رکھنے والے کثیر تعداد میں شریک ہوئے اور چھ دنوں تک مسلسل چلنے والے جشن وراثت اردو کے مختلف پروگرام سے خوب لطف اندوز ہوئے۔ جشن وراثت اردو میں اردو کی تہذیبی روایات کی بھر پور نمائندگی ہوئی۔دہلی حکومت کی جوکوشش ہے کہ شہر دہلی کی سماجی اور تہذیبی وراثت کا فروغ ہو،حکومت دہلی کے اس مشن میں اردو اکادمی نے بھر پور تعاون پیش کیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 16 Nov 2018, 4:09 PM