’موب لنچنگ پر روک لگائیں پی ایم‘، ملک کے 49 دانشوران نے مودی کو خط لکھا

موب لنچنگ کے ہر روز رونما ہوتے واقعات کے خلاف ملک کی اہم شخصیات نے آواز بلند کی ہے، اپنے شعبے کے 49 ناموروں نے پی ایم مودی کو خط لکھ کر ان واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

موب لنچنگ کے بڑھتے واقعات کے درمیان مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ 49 ہستیوں نے وزیر اعظم مودی کو خط لکھ کر اس مسئلہ کو اٹھایا ہے۔ خط میں ہجومی تشدد کے بڑھتے رجحان پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ خط لکھنے والے لوگوں میں سنیما، آرٹ، میڈیکل وغیرہ سے جڑی ہستیاں شامل ہیں۔ وزیر اعظم مودی کو لکھے خط پر منی رتم ، ادور گوپال کرشنن، رامچندر گوہا، انوراگ کشیپ جیسے دانشوران کے دستخط موجود ہیں۔

خط میں لکھا ہے کہ ہمارے آئین کے مطابق ہندوستان ایک سیکولر جمہوری ملک ہے جہاں ہر مذہب، طبقہ، صنف اور ذات کے لوگوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔


خط کے ذریعے دانشوران نے مطالبہ کیا ہے کہ مسلمانوں، دلتوں اور دیگر اقلیتوں کی لنچنگ پر فوری روک لگائی جائے۔ خط میں نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد کی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ یکم جنوری 2009 سے لے کر 29 اکتوبر 2018 کے درمیان مذہب کی بنیاد پر 254 جرائم درج کیے گئے، اس دوران 91 لوگوں کو قتل کیا گیا اور 579 افراد زخمی ہوئے۔ خط کے مطابق مسلمان جو ہندوستان کی آبادی کے 14 فیصد ہیں وہ 62 فیصد جرائم کا شکار بنے، جبکہ عیسائی جن کا آبادی میں حصہ محض 2 فیصد ہے وہ 14 فیصد جرائم کا شکار ہوئے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ ایسے 90 فیصد واقعات مئی 2014 یعنی نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد رونما ہوئے۔


خط میں لکھا گیا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے پارلیمنت میں لنچنگ کے واقعات پر تنقید کی ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ خط میں مزید لکھا ہے۔ ’’ایسا جرم کرنے والوں کے خلاف کیا قدم اٹھایا گیا۔ ہمارا موقف ہے کہ ایسے جرائم کو غیر ضمانتی بنایا جانا چاہیے اور قصورواروں کو ایسی سزا دی جائے کہ وہ نظیر بن جائے۔ جب قتل کے قصورواروں کو بنا پیرول کے عمر قید کی سزا دی جا سکتی ہے تو لنچنگ کے معاملات میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا! ہمارے ملک کے کسی شہری کے دل میں خوف نہیں رہنا چاہیے۔‘‘

اس خط میں جمہوریت میں اختلاف ظاہر کرنے کی پُرزور پیروی کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ اختلاف کے اظہار کے بغیر جمہوریت فروغ نہیں پا سکتی۔ اگر کوئی حکومت کے خلاف رائے دیتا ہے تو اسے ’اینٹی نیشنل‘ یا ’اربن نکسل‘ قرار نہیں دیا جانا چاہیے۔


برسر اقتدار پارٹی پر تنقید کرنے کا مطلب ملک پر تنقید قرار نہیں دیا جانا چاہیے۔ کوئی بھی پارٹی جب اقتدار میں ہوتی ہے تو وہ پارٹی ملک کی علامت نہیں بن جاتی، یہ ملک کی کئی پارٹیوں میں سے محض ایک پارٹی ہی ہوتی ہے۔ لہذا حکومت کے خلاف بولنا یا اسٹینڈ لینا ملک کے خلاف احساسات کا اظہار نہیں ہوتا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔