لکھنؤ میں رمضان کی رونقیں بحال، مہنگائی نے چھین لیا منہ کا نوالہ

ایک بار پھر لکھنؤ سمیت پورے ملک میں ماہ مقدس کی رونقیں لوٹ آئی ہیں لیکن مختلف مقامات پر کئی امور میں پولیس کی غیر اعلانیہ سختی سے تاجر اور دکانداروں میں ناراضگی پائی جاتی ہے

لکھنؤ کا بازار / نواب علی اختر
لکھنؤ کا بازار / نواب علی اختر
user

نواب علی اختر

لکھنؤ: اتر پردیش کی راجدھانی لکھنؤ جو ادب و تہذیب کے لیے مشہور ہے وہیں نوابوں کا یہ شہر حقیقی گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ بھی ہے جہاں مختلف مذاہب کے پیروکار آپسی میل جول کے ساتھ رہتے ہوئے ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔غروب آفتاب کے وقت قابل دید برقی روشنیوں کے سبب جہاں یہ تاریخی شہر سیاحوں کے لیے خوشنما منظر پیش کرتا ہے وہیں فضا میں گونجنے والی اذان منفرد روحانی ماحول بھی فراہم کرتی ہے اور مذہبی لوگ ’اللہ اکبر‘ کی مسحور کن صداؤں کی طرف دوڑتے چلے جاتے ہیں۔ لکھنؤ کا رمضان پوری دنیا میں مشہور ہے لیکن کووڈ کی وجہ سے مقامی اور بیرونی لوگ اس مذہبی اور روحانی ماحول کو دیکھنے کے لیے ترس گئے تھے مگر تقریباً دو سال بعد ایک بار پھر لکھنؤ اپنی حقیقی تصویر پیش کررہا ہے۔

کورونا کے باعث پچھلے دو سالوں میں رمضان کے مہینے میں رونقیں ماند پڑ گئی تھیں جو اس سال دوبارہ بحال ہو گئی ہیں۔ شہر کی مساجد نمازیوں سے گلزار ہیں مگر کمر توڑ مہنگائی کی وجہ سے بازاروں میں سناٹا ہے۔ پرانے لکھنؤ کے امین آباد، اکبری گیٹ، حسین آباد، نخاس ، درگاہ حضرت عباس جیسے مسلم اکثریتی علاقوں میں نماز مغرب سے لے کر نماز فجر تک مساجد کے دروازے کھلے رہتے ہیں اورعبادت گزاروں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے وہیں افطار سے فارغ ہوکر لوگ ہوٹلوں کا رخ کرتے ہیں جہاں مخصوص اور مختلف لذیذ کھانوں سے لطف اندوز ہونے والوں کی زبردست بھیڑ نظر آتی ہے۔ سحری کے وقت چہار سو روزہ داروں کو فرض کی ادائیگی کی دعوت دی جاتی ہے اور اعلان کیا جاتا ہے کہ عمل خیر کی طرف دوڑو۔


لکھنؤ کی مساجد بزرگ نمازیوں کے ساتھ ساتھ معصوم روزہ داروں سے گلزار ہیں خاص طور پر تراویح کے وقت مساجد میں نمازیوں کا ہجوم دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پورا شہراللہ کی بارگاہ میں سربسجود ہوگیا ہے۔ مختلف مساجد میں الگ الگ اوقات میں تراویح ہورہی ہیں جس میں ہر شخص سبقت لینے کی کوشش میں رہتا ہے۔اس موقع پر یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ مساجد کے اندر جہاں نمازیوں کی بھیڑ رہتی ہے وہیں مساجد کے باہرغریب ومسکین اور بیمارافراد بوتل یا دوسرے سامانوں میں پانی لئے کھڑے ہوتے ہیں جس میں تقریباً سبھی لوگ غیر مسلم ہوتے ہیں اور یہ لوگ مسجد سے نکلنے والے نمازیوں سے پانی پھونکنے اور مریض پر ہاتھ پھیرنے کی گذارش کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ نمازیوں کی پھونک سے ان کے مسائل حل ہوجائیں گے۔

دنیا بھر میں پھیلی کووڈ۔19 وبا ء کی وجہ سے تقریباً دو سال مساجد بند رہیں اور ماہ رمضان میں گلی محلوں کی رونقیں جیسے چھپ سی گئی تھیں لیکن اس مرتبہ ایک بار پھر لکھنؤ سمیت پورے ملک میں ماہ مقدس کی رونقیں لوٹ آئی ہیں لیکن مختلف مقامات پر کئی امور میں پولیس کی غیر اعلانیہ سختی سے تاجر اور دکانداروں میں ناراضگی پائی جاتی ہے ۔ باوجود اس کے رمضان کے موقع پر شہر کی مساجد زبردست روحانی منظر پیش کر رہی ہیں جسے دیکھ کر کوئی بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔ رمضان کے لیے سجائے گئے مخصوص کھانے پینے کے اسٹالوں اور ہوٹلوں پر گہما گہمی عروج پر ہے۔اس سلسلے میں ’قومی آواز‘ نے شہر کے کئی علاقوں کا جائزہ لیا اور نمازیوں کے ساتھ ساتھ کھانے کے ہوٹلوں اور دکانداروں سے بات کی جس میں تقریباً سبھی لوگوں نے مساجد کے آباد ہونے کے لیے اللہ کا شکرادا کیا مگر مہنگائی کے لئے حکومت کو کوستے نظر آئے۔


پرانے لکھنؤ میں لذیذ کھانے کا مرکز کہے جانے والے اکبری گیٹ پر واقع مشہور مبین نہاری والے کے پروپرائٹر احمد اللہ مبین نے’قوی آواز‘ کو بتایا کہ کوڈ سے پہلے جب حالات معمول پر تھے یعنی دوسال پہلے تک ہماری دکان پر روزہ کھولنے کے بعد کھانے کے لیے لوگوں کی لائن لگی رہتی تھی یہاں تک کہ سہری میں بھی یہی منظر ہوتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے یہاں سہری میں نہاری کھانے کے لیے کانپور اور بارہ بنکی سمیت آس پاس کے شپروں سے لوگ آتے تھے اور لذیذ کھانوں سے لطف اندوز ہوتے تھے مگر اس بار اب تک ایسا کوئی کسٹمر نہیں دیکھا گیا ہے جو لکھنؤ کے باہر سے سہری کرنے آیا ہو۔ مسٹر مبین نے اس کے لیے مہنگائی کو ذمہ داربتایا حالانکہ کھانا بہت معمولی مہنگا ہوا ہے مگر 100-50 کلو میٹر دور سے آنے والے کو یہ کافی مہنگا پڑرہا ہے کیونکہ پٹرول وسی این جی کافی مہنگے ہوگئے ہیں۔

اسی طرح قلچہ کے لیے مشہور رحیم قلچہ کے مالک محمد رحیم نے بتایا کہ اس سے پہلے رمضان میں ہوٹل کی دونوں منزلیں فل رہتی تھیں اور جتنی بھیراندر ہوتی تھی اتنی ہی بھیڑ باہر سڑک پر ہوتی تھی ۔ انھوں نے کہا کہ کسٹمر کی بھیڑ کو کنٹرول کرنے اورانہیں منظم رکھنے کے لیے ہمیں پرائیویٹ گارڈ کی مدد لینی پڑتی تھی مگر اس بارلگتا ہے مہنگائی نے لوگوں کے منہ کا نوالہ چھین لیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ہوٹل کے اندر ہی کافی جگہ باقی رہتی ہے اس لیے باہر کھڑے ہونے کی نوبت ہی نہیں آتی جس کی وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ بہت سناٹا ہے۔اسی طرح سرکاری سستے کپڑے کی دکان اور دیگر استعمال کی چیزوں کو فروخت کرنے والے دکاندار بھی مہنگائی کو کوستے نظر آئے۔ کیونکہ رمضان اورعید کے موقع پر 200 سے 300 کلو میٹر کے دائرے میں رہنے والے زیادہ لوگ خریداری کے لیے لکھنؤ کا رخ کرتے تھے مگراس سال بازاروں میں وہ رونق نہیں ہے جو دکاندار دیکھنا چاہتے ہیں۔


امسال ماہ رمضان کی رونق لوٹ آنے سے امین آباد، مولی گنج اور رکاب گنج کے لوگ کافی خوش نظر آرہے ہیں ۔امین آباد کے بارے میں مشہور ہے کہ ماہ رمضان میں خریداری اور کھانے پینے کے لیے مسلمان انہیں علاقوں کا رخ کرتے ہیں کیونکہ یہ علاقہ جہاں لذیذ کھانے کا مرکز ہے وہیں خریداری کے لیے بھی مشہور ہے جبکہ ایک بڑی تعداد سیاحوں کی بھی ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہاں مساجد میں نمازیوں کی بھیڑ ہوتی ہے اور بازاروں میں خریداروں کا اژدہام ہوتا ہے ۔ان علاقوں میں کئی پکوان خصوصی طور پر ماہ رمضان میں ہی تیار کیے جاتے ہیں۔ آخری عشرے کے پانچ دنوں میں مسلمان عید کی خریداری کرنے نکلتے ہیں جس کی وجہ سے بازار میں پیر رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی ہے۔اس علاقے کے آس پاس ایک دیڑھ کلو میٹر کے دائرے میں کئی مشہور بازار واقع ہیں جوکہ رمضان کے دوران رات میں بھی دن کا منظر پیش کرتے ہیں ۔ حالانکہ یہ منظر دیکھنے کے لیے ابھی کچھ دنوں کا انتظار کرنا پڑے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔