’دیش کو بچانے کے لیے مودی کو ہرانا ضروری‘، آر ایل ڈی سربراہ اجیت سنگھ سے خصوصی گفتگو

مظفر نگر سے انتخاب لڑ رہے آر ایل ڈی سربراہ چودھری اجیت سنگھ کا کہنا ہے کہ یہ انتخاب اب تک کا سب سے اہم انتخاب ہے۔ اگر برسراقتدار لوگ دوبارہ اقتدار میں لوٹ آئے تو ملک میں جمہوریت کا خاتمہ ہو جائے گا۔

تصویر آس محمد
تصویر آس محمد
user

آس محمد کیف

راشٹریہ لوک دل یعنی آر ایل ڈی کے سربراہ اور ملک کے سابق وزیر اعظم چودھری چرن سنگھ کی وراثت کے قائد چودھری اجیت سنگھ ان دنوں مظفر نگر میں دہلی جانے والی سڑک پر واقع ایک ہوٹل میں اپنے غیر مستقل دفتر میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ مظفر نگر میں اجیت سنگھ کے قیام کو لے کر گزشتہ ایک ہفتے سے لگاتار بات چیت ہو رہی ہے۔ وہ انتخاب کس دروازے سے لڑیں گے، اس پر سوال ہے۔ لیکن خود اجیت سنگھ کہتے ہیں ’’ہر گھر میرا دروازہ ہے اور ہر آنگن میرا اپنا ہے۔ میرے لوگوں کو یہاں ڈرانے دھمکانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ میں زمین اور کسان کا لیڈر ہوں اور کھیت کھلیان سے انتخاب لڑ رہا ہوں۔‘‘

مظفر نگر سے اتحاد کے امیدوار اور آر ایل ڈی صدر چودھری اجیت سنگھ کہتے ہیں کہ یہ انتخاب اب تک کا سب سے اہم انتخاب ہے۔ اگر اس بار برسراقتدار لوگ دوبارہ اقتدار میں لوٹ آئے تو ملک میں جمہوریت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ اس ملک اور اس کے آئینی اداروں کو بچانے کے لیے مودی کو جانا ہی ہوگا۔

لیکن مودی کو کیوں جانا چاہیے؟ یہ سوال پوچھنے پر اجیت سنگھ کہتے ہیں ’’آپ دیکھیے، اس حکومت کے دوران اداروں پر لوگوں کا بھروسہ کتنا کم ہوا ہے۔ سپریم کورٹ، سی بی آئی، آر بی آئی، ریلوے، بی ایس این ایل سمیت تمام ادارے اپنا بھروسہ گنوا رہی ہیں۔ اس لیے یہ اہم نہیں ہے کہ کون کہاں سے کیسے انتخاب لڑے گا، بلکہ یہ اہم ہے کہ اس مشکل وقت میں مودی کس طرح ہارے گا!‘‘

تصویر آس محمد
تصویر آس محمد

اپنی بات رکھتے ہوئے اجیت سنگھ نے آگے کہا کہ ’’اب تو بی جے پی کے اراکین پارلیمنٹ بھی یہ کہنے لگے ہیں کہ اگر مودی اس بار آ گئے تو پھر کبھی انتخابات نہیں ہوں گے۔ اب اگر انتخابات ہی نہیں ہوں گے تو اس کا مطلب آپ سمجھ جائیں کہ ایسی صورت میں کیا ہوگا۔ یہ صحیح بات ہے کہ مودی ملک، جمہوریت، آئین اور بھائی چارے کے لیے خطرہ ہیں۔‘‘

مودی حکومت کی کارگزاریوں پر سوال اٹھاتے ہوئے جاٹ لیڈر نے کہا کہ مودی جی جھوٹ بولتے ہیں۔ ان کی حکومت نے کسانوں، غریبوں اور مزدوروں کی زندگی کو جہنم بنا دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’اس حکومت میں گایوں کی حالت بد سے بدتر ہو گئی ہے۔ کسانوں کی کمائی کا جو پیسہ ان کے بچوں کی اسکول فیس میں جانا چاہیے تھا وہ کسان اپنے کھیت کی تاربندی میں خرچ کر رہا ہے، کیونکہ اس کی فصل آوارہ گھوم رہی گائیں تباہ کر دیں گی۔‘‘

گنّا سے متعلق بقایہ رقم کا مسئلہ اٹھاتے ہوئے اجیت سنگھ نے کہا کہ ’’گنّے کی ادائیگی اس حکومت نے نہیں کی۔ فصلوں کی صحیح قیمت نہیں دی۔ اپنا حق مانگ رہے کسانوں پر لاٹھی برسائی گئی۔ ہم پوری طاقت سے کسانوں اور مزدوروں کے ایشوز پر لڑ رہے ہیں اور ہم لڑتے رہیں گے۔ یہ حکومت اڈانی اور امبانی کے لیے کام کر رہی ہے، کسانوں کے مسائل سے اسے کوئی مطلب نہیں ہے۔‘‘

چودھری اجیت سنگھ کے چہرے پر چمک صاف دکھائی دیتی ہے۔ دراصل یہ چمک مظفر نگر میں انھیں مل رہی زبردست حمایت کی وجہ سے ہے۔ مظفر نگر میں مسلم اور جاٹ اتحاد کی لہر دکھائی دے رہی ہے۔ پہلی بار دلت جاٹ اور مسلمان ایک ہی امیدوار کو کامیاب بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ دونوں طبقہ کے لوگ ایک ہی گاڑی میں بیٹھ کر اجیت سنگھ کے لیے انتخابی تشہیر کر رہے ہیں۔

یہ سب دیکھ کر اجیت سنگھ بہت خوش ہیں اور کہتے ہیں ’’مظفر نگر فسادات کے بعد دو بھائیوں میں دوری پیدا کر دی گئی تھی۔ لیکن اب سبھی سچ جان چکے ہیں۔ انھوں نے نفرت پھیلانے والے سیاستدانوں کی سازش کو پہچان لیا اور اب ساتھ ساتھ ہیں۔‘‘ اجیت سنگھ بتاتے ہیں کہ اس وقت عالم یہ ہے کہ مسلمان بھائی جاٹوں کے گاؤں میں جا کر میرے لیے ووٹ مانگ رہے ہیں۔

اس بات چیت کے دوران اجیت سنگھ سے ملنے ریاست کے سابق وزیر اور سماجوادی پارٹی کے رکن اسمبلی ویریندر سنگھ پہنچے۔ کبھی وہ آر ایل ڈی سے مویشی پروری کے وزیر بھی رہے ہیں۔ انھیں دیکھتے ہی اجیت سنگھ انھیں اپنے برابر میں بٹھا لیتے ہیں۔ وہاں موجود مظفر نگر لوک سبھا انچارج کنور ایوب علی بتاتے ہیں ’’چودھری صاحب بہت سادگی پسند اور نرم دل انسان ہیں۔ وہ کسی سے بھی زیادہ دیر تک ناراض نہیں رہ سکتے۔‘‘

جاٹ لیڈر اجیت سنگھ ابھی 80 سال کے ہیں، لیکن کافی توانائی ان کے اندر دیکھنے کو ملتی ہے۔ گزشتہ سال اپنے جنم دن کے ٹھیک پہلے وہ مظفر نگر پہنچے تھے اور کہا تھا کہ وہ بی جے پی کو دفنانے آئے ہیں۔ اس دوران انھوں نے جاٹ-مسلم اتحاد کے لیے ہاتھ ملانے کا فارمولہ دیا تھا۔ اجیت سنگھ نے بتایا کہ ’’میں نے کہا تھا کہ روز ایک جاٹ ایک مسلمان سے ہاتھ ملائے اور روز ایک مسلمان اس سے گلے ملا کرے۔ ایک دوسرے کی شادی بیاہ میں شامل ہوں اور مل جل کر تہوار منائیں اور قریب آئیں۔‘‘

تصویر آس محمد
تصویر آس محمد

علاقے میں جاٹ-مسلم اتحاد کے لیے اجیت سنگھ کئی درجن گاؤں میں گئے۔ فساد متاثرین سے ملے۔ آج فساد کے دوران مسلمانوں کے مفاد کے لیے بھارتیہ کسان یونین میں دو گروپ کر دینے والے غلام محمد جولا بھی اجیت سنگھ کے لیے ووٹ مانگ رہے ہیں۔ اجیت سنگھ کہتے ہیں ’’یہ انتخاب نجی مفادات اور ناراضگی سے بڑا ہو گیا ہے۔ اس میں یہ طے کرنا ہے کہ یہ ملک آئین سے چلے گا یا دو لوگوں کی منمانی سے۔‘‘

یہی سبب ہے کہ چودھری اجیت سنگھ لگاتار محنت کر رہے ہیں۔ عمر کا اثر ان پر کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ ان کی توانائی دیکھنے لائق ہے۔ اپنے بالوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’’ابھی تو جوان ہوں۔ قریب میں ہی بیٹھے آر ایل ڈی ترجمان ابھشیک چودھری بتاتے ہیں کہ گاؤں-گاؤں انتخابی تشہیر کے دوران چودھری صاحب لوگوں سے مل رہے ہیں۔ دیر رات سوتے ہیں اور صبح 5 بجے سے کارکنان سے ملنا شروع کر دیتے ہیں۔ حیرت انگیز طور سے ان کی توانائی دیکھنے لائق ہے۔‘‘

انتخابات میں شکست و فتح سے الگ اتنا تو طے ہے کہ چودھری اجیت سنگھ مظفر نگر فسادات کے بعد جاٹ-مسلم میں پیدا ہوئی نفرت کو دور کرنے کی کوششوں کے لیے ہمیشہ جانے جائیں گے۔ وہ کہتے ہیں ’’کیرانہ فتح نے بھی اس میں اچھا کردار نبھایا۔ لوک سبھا میں اتر پردیش کے 80 اراکین میں ایک بڑی آبادی کی نمائندگی نہ ہونا بھی مایوسی کرتا تھا۔ مجھ سے کئی بڑے لیڈروں نے کہا کہ کیرانہ میں جنیت کو انتخاب لڑانا چاہیے، لیکن میں نے طے کر لیا تھا کہ میں کسی مسلمان کو ہی لڑاؤں گا۔ اس فتح کے بعد مسلمانوں کا جاٹوں پر بھروسہ لوٹ آیا ہے۔‘‘

اجیت سنگھ کچھ جذباتی انداز میں کہتے ہیں کہ ’’سب سے اچھا یہ تھا کہ رمضان کے مہینے میں مسلمان بھائیوں کے لیے جاٹوں نے اپنی لائن سے ہٹ کر انھیں پہلے ووٹ ڈالنے کی جگہ دی۔ یہ بڑی تبدیلی تھی۔ اس سے مجھے بہت خوشی ہوئی۔ مجھے اس سب سے بہت تسلی ملی۔‘‘ قابل ذکر ہے کہ لوک سبھا انتخاب کے پہلے مرحلہ میں اتر پردیش کی مظفر نگر لوک سبھا سیٹ سب سے اہم ہے۔ مظفر نگر فسادات کے بعد ملک بھر میں پولرائزیشن دیکھنے کو ملا تھا۔ سیاسی ماہرین مانتے ہیں کہ مرکز میں اقتدار تبدیلی کی وجہ بھی مظفر نگر فساد ہی بنا تھا۔ کسان لیڈر چودھری اجیت سنگھ مظفر نگر سے مشترکہ اپوزیشن کے امیدوار ہیں۔ مظفر نگر میں 11 اپریل کو انتخاب ہے۔ اس سیٹ پر تقریباً 16 لاکھ ووٹر ہیں جن میں سے ساڑھے پانچ لاکھ صرف مسلم ووٹر ہیں۔ یہاں سے بی جے پی کے سنجیو بالیان رکن پارلیمنٹ ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔