تین سال میں ایمس کے 429 ڈاکٹر مستعفی، 52 کا تعلق دہلی سے؛ ماہرین تشویش میں مبتلا

گزشتہ تین برسوں میں ملک کے مختلف ایمس اداروں سے 429 ڈاکٹروں نے استعفیٰ دیا، 52 کا تعلق صرف دہلی ایمس سے ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ رجحان سرکاری صحت نظام کے لیے تشویشناک اشارہ ہے

<div class="paragraphs"><p>ایمس دہلی / Getty Images</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: ملک کے سب سے بڑے طبی ادارے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) میں گزشتہ تین برسوں کے دوران ڈاکٹرز کے استعفوں کی تعداد تشویشناک سطح تک پہنچ گئی ہے۔ وزارت صحت و خاندانی بہبود کی جانب سے پارلیمنٹ میں پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق سال 2022 سے 2024 کے درمیان کل 429 فیکلٹی ممبران (ڈاکٹروں) نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا۔ ان میں سے سب سے زیادہ 52 استعفے دہلی کے ایمس سے آئے ہیں۔

یہ اعداد و شمار منگل کو راجیہ سبھا میں صحت و خاندانی بہبود کے وزیر مملکت پرتاپ راؤ جادھو نے پیش کیے۔ انہوں نے بتایا کہ استعفوں کی وجوہات میں ذاتی اور پیشہ ورانہ دونوں عوامل شامل ہیں، تاہم وزارت نے ان اسباب کی تفصیلات عام نہیں کیں اور نہ ہی اس پر کوئی جامع قومی مطالعہ کرایا ہے۔

اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ دہلی کے بعد سب سے زیادہ استعفے ایمس رشی کیش سے آئے ہیں، جہاں 38 فیکلٹی اراکین نے عہدہ چھوڑا۔ ایمس رائے پور میں 35 اور ایمس بلاس پور میں 32 استعفے ریکارڈ کیے گئے۔ اسی طرح آندھرا پردیش کے ایمس منگل گری سے 30، ایمس بھوپال سے 27 اور ایمس جودھپور سے 25 ڈاکٹروں نے اپنا منصب چھوڑا۔


یہ رجحان صرف بڑے مراکز تک محدود نہیں بلکہ نئے قائم شدہ ایمس ادارے بھی اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ مغربی بنگال کے ایمس کلینی اور پنجاب کے ایمس بٹھنڈہ سے 22-22 استعفے درج ہوئے، جبکہ مدورئی، وجے پور اور گوہاٹی جیسے نسبتاً چھوٹے مراکز سے بھی محدود تعداد میں ڈاکٹروں نے علیحدگی اختیار کی۔

ماہرین صحت کے مطابق، سرکاری اداروں سے ڈاکٹروں کا نجی شعبے کی طرف رخ کرنا کئی اہم سوالات کھڑے کرتا ہے، خاص طور پر کام کے حالات، کیریئر میں ترقی کے مواقع اور تنخواہوں کے حوالے سے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ ذاتی وجوہات بھی ایک عنصر ہو سکتی ہیں، لیکن پیشہ ورانہ مسائل اور بہتر مواقع کی تلاش بنیادی محرکات میں شامل ہیں۔

ایمس کو عالمی معیار کی طبی تعلیم، تحقیق اور علاج کی سہولیات فراہم کرنے کے مقصد سے قائم کیا گیا تھا۔ ایسے میں تجربہ کار فیکلٹی کا بڑے پیمانے پر نقصان نہ صرف تعلیم اور تحقیق کو متاثر کرتا ہے بلکہ مریضوں کی نگہداشت کے معیار پر بھی براہِ راست اثر ڈالتا ہے۔

ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ اگر حکومت نے اس سلسلے میں فوری اور مؤثر پالیسی اقدامات نہ کیے تو یہ رجحان مزید تیز ہو سکتا ہے، جس کے نتیجے میں ملک کا سرکاری صحت کا ڈھانچہ کمزور پڑ جائے گا۔ ان کے مطابق ضروری ہے کہ حکومت نہ صرف تنخواہوں اور سہولیات کو بہتر بنائے بلکہ کام کے حالات اور پیشہ ورانہ ترقی کے مواقع میں بھی خاطر خواہ بہتری لائے، تاکہ ماہر اور تجربہ کار ڈاکٹر طویل مدت تک ایمس جیسے اداروں سے وابستہ رہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔