بلقیس بانو معاملہ میں اہم انکشاف: رہائی کے دستاویزات میں مجرموں کے گھناؤنے کرتوتوں کا ذکر تک نہیں کیا گیا!

رپورٹ کے مطابق دستاویز میں بلقیس بانو کی ساڑھے تین سالہ بچی کو پیٹ پیٹ کر قتل کرنے، ایک دن کی بچی کو قتل کرنے اور حاملہ بلقیس بانو سے اجتماعی عصمت دری جیسی تفصیلات کا ذکر نہیں ہے۔

بلقیس بانو / Getty Images
بلقیس بانو / Getty Images
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: سپریم کورٹ بلقیس بانو کیس کے 11 مجرموں کی رہائی کے خلاف دائر عرضی پر آج سماعت کرے گی۔ سماعت کے دوران آج گجرات حکومت کو وہ دستاویزات پیش کرنے ہیں، جن کی بنیاد پر اس سنگین معاملے کے مجرموں کو رہا کیا گیا تھا۔ 27 مارچ کو ہوئی سماعت میں عدالت نے گجرات حکومت سے قصورواروں کی رہائی کا فیصلہ کرنے سے متعلق دستاویزات طلب کیے تھے۔ اس کے بعد اس معاملے کی سماعت 18 اپریل کو ہوئی لیکن اس دن بھی حکومت عدالت میں دستاویزات پیش کرنے سے قاصر رہی۔ سوال یہ ہے کہ ان دستاویزات میں کیا ہے، جن کی بنیاد پر مجرموں کو رہا کیا گیا؟ اب 'دینک بھاسکر' نے ان دستاویزات کے بارے میں سنسنی خیز انکشاف کیا ہے۔

'دینک بھاسکر' نے اپنی خصوصی رپورٹ میں بتایا ہے کہ بلقیس بانو کے خلاف سنگین جرم کی نوعیت گجرات حکومت کی دستاویز میں چھپائی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق بلقیس بانو کی ساڑھے تین سالہ بچی کو پیٹ پیٹ کر قتل کرنے، ایک دن کی بچی کے قتل کرنے اور حاملہ بلقیس بانو سے اجتماعی عصمت دری جیسی تفصیلات کا ذکر دستاویزات میں نہیں ہے۔ اس واقعہ میں ایک نابالغ لڑکی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری بھی کی گئی تھی۔


دستاویزات میں کہا گیا ’’فیصلے کی کاپی کے مطابق کار سیوکوں سے بھری سابرمتی ایکسپریس ٹرین کی بوگیوں کو نذر آتش کرنے کے بعد گودھرا میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے۔ متاثرین اور ان کے اہل خانہ تشدد سے بچنے کے لیے رندھیک پور گاؤں سے دوسری جگہ جا رہے تھے۔ ان پر ہندوؤں کے ہجوم نے قیصر باغ کے جنگل میں حملہ کر دیا۔ اس دوران متاثرہ کی عصمت دری کی گئی اور دیگر مسلم خواتین کو قتل کر دیا گیا۔‘‘

اس کے علاوہ ان دستاویزات میں قانونی خامی بھی موجود ہیں۔ دراصل، گجرات حکومت کو مجرموں کی رہائی کے لیے 5 متعلق افراد یا اداروں کی رائے لینے کی ضرورت تھی۔ رپورٹ کے مطابق 5 میں سے 3 متعلقین نے اس گھناؤنے جرم کے مجرموں کی رہائی کی منظوری دی، تاہم دو نے جرم کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے قبل از وقت رہا نہ کرنے کی رائے دی۔ پانچ متعلقین میں پہلا، سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ہے، جہاں متاثرہ یعنی بلقیس ہے، دوسرا، تفتیشی ایجنسی یعنی سی بی آئی، تیسرا، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ، چوتھا، وہ عدالت ہے جس نے سزا سنائی اور پانچواں، وہ جیل ہے جس میں مجرمین فی الحال قید تھے۔


اب سوال یہ ہے کہ پانچ میں سے وہ دو متعلقین کون ہیں جنہوں نے مجرموں کی رہائی کے فیصلے پر اتفاق نہیں کیا۔ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اسپیشل کرائم برانچ اور سی بی آئی نے مجرموں کو رہا نہ کرنے کے حق میں رائے دی تھی۔ سی بی آئی نے اپنے جواب میں کہا تھا کہ یہ جرم اتنا سنگین اور گھناؤنا ہے کہ بغیر کسی رحم کے ہم اس معاملے میں اپنی رائے منفی دیتے ہیں۔ سی بی آئی نے کہا تھا کہ مجرم کو وقت سے پہلے رہا نہیں کیا جانا چاہئے۔

ساتھ ہی ممبئی سیشن کورٹ نے حکومت کے قواعد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ قتل اور اجتماعی عصمت دری کے گھناؤنے جرم میں سزا کاٹ رہے قیدیوں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ حکومت کے قوانین کے مطابق قیدیوں کو کسی بھی صورت میں رہا نہیں کیا جانا چاہیے۔


بلقیس بانو کے علاقے کے پولیس سپرنٹنڈنٹ، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور جیل نے مجرموں کی رہائی کے حق میں اپنی رائے دی۔ غور طلب ہے کہ مجرموں میں سے ایک، جس کا نام رادھے شیام شاہ ہے، کی رہائی کی سفارش ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے بھی نہیں کی تھی۔ 'دینک بھاسکر' کے انکشافات سے کئی سنگین سوالات اٹھ گئے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔