امام امداد الرشیدی نے ہندوستان کا دل جیتا

شر پسند عناصرجس طرح جلوس میں اقلیتی طبقہ کو بھڑکانے والے گانے بجا رہے تھے اور ہتھیار لہرا لہرا کر بھڑکاؤ نعرے لگا رہے، لیکن امن پسند عوام نے اس عمل کا رد عمل ظاہر نہیں کیا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

تنویر احمد

گزشتہ دنوں پورے ملک میں رام نومی جلوس کے دوران شرپسند عناصراور ہندوتوا طاقتوں کے ذریعہ ہتھیاروں کے ساتھ جس طرح ننگے ناچ کا مظاہرہ کیا گیا، اس نے ملک کے حساس اور سنجیدہ طبقہ کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ خصوصاً مغربی بنگال کے آسنسول میں جس طرح 16 سالہ معصوم صبغۃ اللہ رشیدی کو تشدد پسندوں نے پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا، وہ ملک کی گنگا-جمنی تہذیب کو دھچکا پہنچانے والی تھی۔ لیکن صبغۃ اللہ کے والد امام امدادالرشیدی نے اس قتل کے بعد مشتعل اقلیتی طبقہ سے اس کا بدلہ نہ لینے کی جس انداز میں اپیل کی وہ ظاہر کرتا ہے کہ اس جمہوری ملک میں ہندو-مسلم اتحاد کو آر ایس ایس اور بجرنگ دل جیسی تنظیمیں اتنی آسانی سے ختم نہیں کرسکتیں۔

آسنسول میں نورانی مسجد کے امام امداد الرشیدی کا بیان کہ ’’اگر میرے بیٹے کے قتل کا بدلہ کسی نے لینے کی کوشش کی تو میں مسجد اور شہر چھوڑ کر چلا جاؤں گا‘‘ لوگوں میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے اور انھیں ایک سچا ہندوستانی اور گنگا-جمنی تہذیب کا علمبردار قرار دیا جا رہا ہے۔ اس بیان کے بعد سوشل میڈیا اور ہندو-مسلم عوام میں وہ ’ہیرو‘ کی شکل میں دیکھے جا رہے ہیں۔ جوان بیٹے کی موت پر صبر کرنے اور علاقے میں امن و امان قائم رکھنے کی امدادالرشیدی کی کوششوں پر خوشی ظاہر کرتے ہوئے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سنٹر فار کمپیریٹیو ریلیجنس اینڈ سویلائزنس ڈپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر منیشا سیٹھی کہتی ہیں کہ ’’مولانا کی جتنی تعریف کی جائے اتنی کم ہے۔ ان کا بیان بتاتا ہے کہ عام لوگ کبھی تشدد نہیں چاہتے۔ کچھ ماہ پہلے انکت سکسینہ کے قتل پر اس کے والد یشپال سکسینہ نے بھی کچھ ایسا ہی بیان دیا تھا۔‘‘ ڈاکٹر منیشا’قومی آواز‘ سے بات چیت کے دوران بتاتی ہیں کہ ’’رام نومی کے جلوس میں اَب عام لوگوں کی شرکت کم اور سیاسی لوگوں کی شرکت زیادہ ہونے لگی ہے۔ بجرنگ دل، وی ایچ پی جیسی تنظیمیں جلوس کو فرقہ وارانہ رنگ دینا چاہتی ہیں جو ایک خطرناک عمل ہے۔ آسنسول میں بھی کچھ ایسا ہی دیکھنے کو ملا ہے لیکن امام امدادالرشیدی صاحب نے جس صبر اور حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں سے امن بنائے رکھنے کی اپیل کی، وہ بے مثال اور قابل قدر ہے۔‘‘

معروف سماجی کارکن کمال فاروقی نے ’قومی آواز‘ سے بات چیت کے دوران امام امدادالرشیدی کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’بیٹے کے قتل کا بدلہ نہ لینے کا امام کا بیان بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن کوئی بھی اس بیان کو ان کی کمزوری نہ سمجھے۔ مولانا کا بیان ملک کے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے تھا جس کی ہم داد دیتے ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’ایک انسان جس نے اپنا بیٹا کھویا ہے، اس کی تکلیف اور صبر کو سمجھنا چاہیے۔ ان کی یہ سوچ یقیناً قابل قدر ہے کہ جس طرح ان کے معصوم بیٹے کی جان گئی ویسے کسی دوسرے بچے کی جان نہیں جانی چاہیے۔‘‘ ملک کی کئی ریاستوں میں اس مرتبہ رام نومی کے مسلح جلوس سے متعلق اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے کمال فاروقی کہتے ہیں کہ ’’مذہبی عقیدت میں ہتھیاروں کے ساتھ جلوس نکالنا غلط نہیں ہے لیکن آج کل جس طرح کسی کو ڈرانے کے مقصد سے مسلح جلوس نکالے جا رہے ہیں وہ بہت خطرناک ہے اور ملک کی سیکولر شبیہ کے لیے مضر بھی۔‘‘

انڈین ریلویز میں افسر راجیش کھرے بھی موجودہ دور میں نکالے جا رہے جلوس کے انداز سے بہت خوش نظر نہیں آرہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’مذہبی تشدد غلط ہے چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج کل جلوس میں طاقت کا مظاہرہ کیا جانے لگا ہے جسے درست قرار نہیں دیا جانا چاہیے۔ ایسے جلوس نکالنے کی اجازت تو حکومت کو دینی ہی نہیں چاہیے۔‘‘ امام امدادالرشیدی کی تعریف میں راجیش کھرے کہتے ہیں کہ ’’یہ ان کا بڑپن ہے کہ بیٹے کی موت کا صدمہ برداشت کیا اور لوگوں کو تشدد کرنے سے روکا۔ ان کا بیان ملک کی فضا خراب کرنے والوں کے منھ پر طمانچہ ہے اور مجھے خوشی ہے کہ امام صاحب کی گزارش کے بعد آسنسول میں حالات مزید خراب نہیں ہوئے۔‘‘

خاتون مصنف اور سماجی کارکن فرح نقوی سے جب ’قومی آواز‘ نے رام نومی جلوس کے دوران ملک کی مختلف ریاستوں میں ہوئے تشدد کے واقعات پر رائے جاننے کی کوشش کی تو انھوں نے بتایا کہ ’’بہار اور بنگال میں خصوصی طور پر فساد برپا کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ان دونوں ریاستوں میں جو تشدد دیکھنے کو ملے ہیں ان کا پیٹرن یکساں ہے اور قصداً ایسے حالات بنائے جا رہے ہیں جس سے ’ایکشن‘ اور ’ری ایکشن‘ ہوتا ہے، پھر فضا میں زہر پھیل جاتا ہے۔‘‘ صبغۃ اللہ رشیدی کے قتل اور علاقے میں امن کے قیام کے مقصد سے ہزاروں کے مجمع سے اس کے والد امام امدادالرشیدی کے خطاب کے تعلق سے وہ کہتی ہیں کہ ’’امام کا بیان انسانی اقدار کا پاسدار ہے۔ ان کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ ہمارے ملک میں ہندو-مسلم اتحاد ایک مثال ہے اور صبغۃ اللہ کے والد امدادالرشیدی اور کچھ مہینے قبل انکت سکسینہ قتل معاملہ کے بعد اس کے والد یشپال سکسینہ نے جو بیان دیا وہ عام لوگوں کی سوچ کو ظاہر کرنے والا ہے۔ عوام کبھی آپس میں لڑنا نہیں چاہتے، سیاسی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے کچھ لوگ ہندو-مسلم اتحاد اور گنگا-جمنی تہذیب کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر تشدد اور جرائم کے ذریعہ کسی قوم کو نشانہ بنایا جانے لگا تو مجھے ڈر ہے کہ اس ملک کا مستقبل تاریک ہے۔‘‘ بہار کے کئی اضلاع میں پرتشدد واقعات اور فسادات کے پیش نظر فرح نقوی نے نتیش کمار کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ جس طرح کے اشتعال انگیز بیانات آئے ہیں اور بہار کے وزیر اعلیٰ نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے، وہ شرمناک ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے اس سے صاف پتہ چل رہا ہے کہ نتیش کمار کے کنٹرول میں کچھ بھی نہیں ہے۔

گزشتہ ایک ہفتہ میں رام نومی اور ہنومان جینتی کے جلوس کا استعمال جس طرح اقلیتی طبقہ کو مشتعل کرنے کے لیے کیا گیا وہ حیران کرنے کے ساتھ ساتھ بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ وی ایچ پی، بجرنگ دل اور آر ایس ایس کارکنان جس طرح جلوس میں اقلیتی طبقہ کو بھڑکانے والے گانے بجاتے رہے اور ہتھیار لہرا لہرا کر بھڑکاؤ نعرے بھی لگاتے رہے، لیکن امن پسند عوام نے اس عمل کا رد عمل ظاہر نہیں کیا اور خاموشی اختیار کرنا ہی بہتر سمجھا۔ لیکن اس کے باوجود کئی جگہ حالات ہنوز کشیدہ ہیں اور لوگ خوف کے سائے میں سانسیں لے رہے ہیں۔ لیکن یہ حالات بھی دھیرے دھیرے بہتر ہو جائیں گے اور کانگریس سربراہ راہل گاندھی نے 31 مارچ کو اپنے ایک ٹوئٹ میں بہت صحیح لکھا ہے کہ ’’امام امدادالرشیدی اور یشپال سکسینہ کے بیٹوں کی جانیں نفرت اور فرقہ واریت نے لے لی لیکن ان کے پیغامات ظاہر کرتے ہیں کہ ہندوستان میں محبت ہمیشہ نفرت کو شکست دے گی۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 02 Apr 2018, 7:45 PM