آئی آئی ٹی کھڑگپور کے طالب علم فیضان احمد کی موت کا معاملہ، دو ہفتے گزر جانے کے باوجود حل طلب، والدین مایوس

دو ہفتہ گزر جانے کے باوجود آئی آئی ٹی کھڑگپور کے طالب علم فیضان احمد کی مشتبہ موت کا معاملہ حل نہیں ہو سکا۔ پولیس اب بھی اندھیرے میں۔والدین سخت مایوس

تصویر بشکریہ ’دی ٹیلی گراف‘
تصویر بشکریہ ’دی ٹیلی گراف‘
user

یو این آئی

کولکاتا: ملک کے مشہور انڈین انسی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کھڑگپور کے 23 سالہ فیضان احمد کی مشتبہ حالت میں موت کو دو ہفتہ گزر جانے کے باوجود نہ مغربی بنگال کی پولیس اور نہ ہی آئی آئی ٹی کھڑگپور کی انتظامیہ کوئی اس بات کا جواب دینے سے قاصر ہیں کہ فیضان احمد کی موت کن حالات میں ہوئی اور اس کے لئے ذمہ دار کون ہے۔

خیال رہے کہ 14 اکتوبر کو مکینیکل انجینئرنگ کے تیسرے سال کے طالب علم فیضان احمد کی جزوی طور پر بوسیدہ لاش ایل ایل آر ہاسٹل سے برآمد ہوئی تھی۔ کھڑگپور آئی آئی ٹی انتظامیہ نے اس کو خودکشی سے جوڑ کر معاملہ کو رفع دفع کرنے کی کوشش کی۔ آسام کے رہنے والے فیضان احمد اپنے والدین کے اکلوتی اولاد ہیں۔ بیٹے کی ناگہانی موت سے والدین صدمے میں ہیں۔ ادھر، آئی آئی ٹی کھڑگپور کے کیمپس میں بھی سخت غم و غصہ پایا جا رہا ہے، طلبا تنظیمیں اس کو خودکشی ماننے کو تیار نہیں ہیں، کیوں کہ فیضان احمد اپنے کلاس میں ہونہار طالب علم کے طور پر جانے جاتے تھے اور وہ کیمپس میں سماجی سرگرمیوں میں بھی وابستہ تھے۔ نیز ہو اسٹوڈنٹس ویلفیئر گروپ اور یو جی اسٹوڈنٹس کونسل کے بھی سرگرم رکن تھے۔


کیمپس میں طلبا نے اپنے ساتھی کی ناگہانی اور حادثاتی موت پر گزشتہ شب کینڈل مارچ نکال کر اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اس واقعے کی منصفانہ جانچ کا مطالبہ کیا۔ طلبا نے ڈائریکٹرسے بھی ملاقات کر کے اپنے تحفظات کا اظہار کیا کہ فیضان احمد کی خودکشی کی تھیوری ناقابل فہم ہے۔

فیضان کی والدہ ریحانہ نے بتایاکہ 11 اکتوبر کو اس نے دوپہر میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ کھانا بہت ہی لذیز تھا، پھر لائبریری جلد سے جلد پہنچنے کا کہہ کر اس نے بات ختم کر دی۔ رات کو 7.30 بجے جب وہ رات کا کھانا کھانے کے لئے ہاسٹل سے جا رہا تھا تو اس نے اپنی خالہ سے بھی بات کی تھی۔ ریحانہ کہتی ہیں کہ وہ مجھے اور خالہ سے بات کرتے وقت بہت ہی خوشگوار موڈ میں تھا۔کہیں سے بھی نہیں لگ رہا تھا کہ وہ ذہنی طور پر پریشان ہے۔مگر یہ اچانک کیسے ہو گیا؟ اس کے ساتھ یہ سب کس نے کیا۔میرا بیٹا بنگال کا مہمان تھا ۔یہاں وہ تعلیم حاصل کرنے کےلئے آیا تھا۔میں ممتا بنرجی جو خود خاتون ہیں وہ ایک ماں کا درد سمجھ سکتی ہیں سے انصاف کی امید کرتی ہوں، میرے بیٹے کے گناہ گاروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔

والدین نے آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسواس شرما اور مرکزی وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان کو خط لکھ کر اعلیٰ سطحی انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔ ہیمنت بسواس شرما نے اس واقعہ پرٹویٹ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انہوں نے بنگال کے وزیر اعلیٰ کو خط لکھ کر موت کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

فیضان کے اہل خانہ اور دوستوں کے مطابق وہ بہت ہت محنتی اور ذہین طالب علم تھا۔ ریاستی سطح کے ریاضی اور کیمسٹری اولمپیاڈ میں تین طلائی تمغے حاصل کر چکا تھا۔ وہ بچپن سے ہی تعلیمی مقابلے میں حصہ لیتا تھا اور کامیاب ہوتا تھا۔ ماں نے بتایا کہ فیضان ہمارے گھر کے لئے برکت تھا۔


آسام میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اہل خانہ نے بتایا کہ آئی آئی ٹی کھڑگپور کی انتظامیہ نے سی سی ٹی وی فوٹیج نہیں دکھائی ہے۔ خاندان نے پراسرار موت کی مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ فیضان کی خالہ سلمی احمد نے پریس کانفرنس میں کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنے بڑے ادارے کے ہاسٹل میں سی سی ٹی وی کیمرہ نہ ہو۔ انہوں نے کہا ’’یہ پہلے سے منصوبہ بند قتل ہے اورر انتظامیہ کے دعوئوں میں تضاد ہے۔ پہلے انہوں نے ہمیں بتایا کہ اس کی موت پھانسی سے ہوئی، پھر بتایا کہ وہ ذہنی طور پر غیر مستحکم تھا اور بعد میں بتایا کہ دل کا دورہ پڑنے سے اس کی موت ہوئی ہے۔‘‘ ماں ریحانہ احمد نے بتایا کہ فیضان کے ساتھ مارپیٹ کی گئی تھی کیوں کہ اس کی ناک پر نظر آ رہا تھا۔

اہل خانہ نے دعویٰ کیا کہ جب وہ کیمپس پہنچے تو انہیں نہ تو انتظامیہ کی طرف سے کوئی کال موصول ہوئی اور نہ ہی انہیں واقعے کے بارے میں صحیح طور پر آگاہ کیا گیا۔ ریحانہ نے کہا کہ جب وہ کیمپس پہنچی اور آئی آئی ٹی کے ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر سے بات کی تو ان کے پاس ان کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔ ہمیں آئی آئی ٹی کھڑگپور انتظامیہ کی طرف سے مطلع نہیں کیا گیا۔ پولیس نے ہمیں اطلاع دی۔ وارڈن نے بتایا کہ ان کی طبیعت ناساز ہے اس لیے وہ تین دن سے ہاسٹل میں نہیں تھا۔

ریحانہ نے کہا کہ جب وہ بیٹے کی موت سے متعلق جب ڈائریکٹر اور ان کی ٹیم سے بات کررہی تھی اس وقت میٹنگ میں موجود ایک شخص (جس کی کنیت مبینہ طور پر داس تھی) میٹنگ کے دوران مسکراتا رہا۔ جب ہم غمزدہ تھے، انہوں نے کوئی سنجیدگی ظاہر نہیں کی۔

فیضان کی خالہ نے بتایا کہ داس کا رویہ شرمناک تھا وہ اس ماں کے سامنے مسکرا رہا تھا جس نے اپنا سب کچھ کھو دیا ہے۔ انتظامیہ نے یہ بھی بتایا کہ وہ ایک ہی کمرے میں رہ رہا تھا لیکن اس کے کپڑے اور دیگر اشیاء ہاسٹل کے دیگر کمروں سے برآمد ہوئی ہیں۔ذرائع کے مطابق فیضان جس ہاسٹل میں تھا اس میں کچھ مسائل پیدا ہوئے ہیں اس لئے وہ حال ہی میں دوسرے ہاسٹل میں منتقل ہوا تھا۔

طلبا کے مسلسل احتجاج اور ڈائریکٹر رویندر کمار تیواری کے استعفیٰ کے مطالبے کے پیش نظر 22 اکتوبر کو ڈپٹی ڈائریکٹر نے اوپن ہاؤس میں طلبا سے خطاب کیا اور ان کی باتوں کو سنا۔ یہ میٹنگ رات بھر چلی۔ میٹنگ میں ڈپٹی ڈائریکٹرنے قبول کیا کہ کہیں نہ کہیں کوتاہیاں ہوئی ہیں۔ ہمیں معلوم ہی نہیں ہو سکا کہ فیضان کی موت کن حالات میں کس طرح سے ہوئی ہے۔


ایک طالب علم نے بتایا کہ اوپن ہاؤس رات 8.30 بجے شروع ہوا اور اگلی صبح 7 بجے تک چلتا رہا۔ رات بھر اوپن ہاؤس چلنے کی وجہ سے ڈائریکٹر بیمار ہو گئے، اس لئے میٹنگ کو ملتوی کرنا پڑا۔ 20 اکتوبر کو فیضان کی والدہ نے کیمپس میں طلبا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’انتظامیہ نے ہم سے معذرت کی ہے لیکن میں ان کی معذرت کا کیا کروں؟ یہ نہ فیضان کو واپس لاسکیں گے اور نہ انہیں انصاف دلاسکیں گے۔‘‘

کھڑگپور ٹاؤن پولیس اسٹیشن کے تفتیشی افسر ثمر لئیق نے بتایا کہ اس معاملے کی تفتیش جا ری ہے۔ کسی نتیجے پر پہنچنے میں کچھ وقت لگے گا۔ ہم نے طلبا سمیت 10 سے زائد لوگوں سے پوچھ گچھ کی ہے۔ تاحال پوسٹ مارٹم رپورٹ حاصل نہیں ہوئی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔