اشوکا یونیورسٹی پہنچی انٹیلی جنس بیورو کی ٹیم، 2019 کے انتخابات پر سوال اٹھانے والے پروفیسر سے کرنا چاہتی تھی پوچھ گچھ

آئی بی نے اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر سبیاساچی داس کے ایک تحقیقی مقالے پر تنازعہ کے بعد یونیورسٹی کیمپس کا دورہ کیا، جس میں 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں 'دھاندلی' کا امکان ظاہر کیا گیا ہے

<div class="paragraphs"><p>سوشل میڈیا</p></div>

سوشل میڈیا

user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: ملک میں تعلیمی آزادی پر اٹھ رہے سوالات کے درمیان انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کی ایک ٹیم ہریانہ کی اشوکا یونیورسٹی پہنچی۔ آئی بی کی ٹیم یونیورسٹی کے شعبہ معاشیات کے ایک سابق پروفیسر کے ذریعہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات پر 'ڈیموکریٹک بیک سلائیڈنگ ان دی ورلڈس لارجیسٹ ڈیموکریسی' کے عنوان سے ایک تحقیقی مقالے کی جانچ پڑتال کے سلسلے میں کیمپس پہنچی تھی۔ رپورٹ کے مطابق آئی بی کی ٹیم سابق اسسٹنٹ پروفیسر سبیاساچی داس سے پوچھ گچھ اور اس سلسلے میں اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کے فیکلٹی ممبران سے بات کرنا چاہتی تھی۔

کیمپس ذرائع نے تصدیق کی کہ آئی بی حکام کی ایک ٹیم نے داس کی تلاش میں یونیورسٹی کا دورہ کیا۔ داس کے تحقیقی مقالے میں 2019 کے عام انتخابات میں ووٹروں کی ہیرا پھیری کے بارے میں بات کی گئی تھی، جس کے بعد تنازعہ کھڑا ہو گیا تھا۔ تاہم یونیورسٹی کی طرف سے آئی بی حکام کو اطلاع دی گئی کہ داس چھٹی پر ہیں۔ اس کے بعد آئی بی حکام نے شعبہ اقتصادیات کے دیگر فیکلٹی ممبران سے ملنے کی درخواست کی۔


داس نے اس ماہ کے شروع میں یونیورسٹی سے استعفیٰ دے دیا تھا، جس کے بعد پروفیسر پلاپرے بالاکرشنن نے بھی داس کا استعفیٰ منظور کیے جانے کے خلاف احتجاجاً یونیورسٹی سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ یونیورسٹی کے کئی شعبوں بشمول معاشیات، سماجیات، بشریات اور سیاسیات نے داس کی حمایت کی ہے اور ان کی فوری بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔ ملک بھر کی 91 یونیورسٹیوں کے 320 ماہرین معاشیات نے بھی داس کی حمایت کی ہے اور یونیورسٹی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انہیں فوری طور پر بحال کرے۔

شعبہ معاشیات نے داس کے استعفیٰ کی منظوری پر مایوسی کا اظہار کیا تھا اور یونیورسٹی کی گورننگ باڈی کو ایک کھلا خط لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ’جلد بازی‘ کی منظوری سے ان کا اعتماد ٹوٹ گیا ہے۔ فیکلٹی ممبران نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ یونیورسٹی اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کی گورننگ باڈی ان کے کام میں مداخلت نہ کرے اور ان پر زور دیا کہ وہ 23 اگست تک داس سے متعلق مسئلہ کو حل کریں۔


اپنے استعفیٰ خط میں بالاکرشنن نے لکھا، ’’میں نے اپنے دل کی آواز پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا ہے کہ سوشل میڈیا پر داس کے پیپر کو موصول ہونے والی توجہ کے جواب میں فیصلے میں سنگین غلطی ہوئی تھی اور میرے لیے (عہدے پر) برقرار رہنا ناانصافی ہوگی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے پاس خبر ہے کہ گورننگ باڈی نے داس کو اس عہدے پر واپس آنے کے لیے مدعو کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے انہوں نے استعفیٰ دیا تھا اور اگر یہ سچ ہے تو میں اس قدم کی تعریف کرتا ہوں۔ اگر نہیں، تو میں کمیونٹی کے لیڈروں کی حیثیت سے آپ سے گزارش کروں گا کہ ایسا کرنے پر غور کریں۔"

کانگریس نے منگل کو بی جے پی زیرقیادت مرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے الزام لگایا کہ اس نے پروفیسر سبایاساچی داس کے تحقیقی مقالے سے متعلق تنازعہ کے درمیان ہریانہ کی اشوکا یونیورسٹی میں انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کی ٹیم بھیجی ہے۔ پارٹی نے کہا کہ ’’حکومت صرف جمہوریت کے قتل کو ثابت کر رہی ہے۔‘‘


ایک ٹوئٹ میں کانگریس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے کہا ’’انٹیلی جنس بیورو کو ایک پریمیئر پرائیویٹ یونیورسٹی کے کیمپس میں بھیج کر ’ہندوستان میں جمہوری پسپائی‘ کی جانچ پڑتال کرا کر نریندر مودی کی زیر قیادت مرکزی حکومت صرف اس بات کو ثابت کر رہی ہے ہندوستان میں واقعہ جمہوریت کا قتل ہو چکا ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔