کاش وزیر اعظم اِن پہلوؤں پر بھی غور کرتے!

افسوس صد افسوس کہ وزیر اعظم نے سی اے اے مخالف مظاہرین کو اپنے خطاب سے ایسے علیحدہ کر دیا جیسے کورونا کے مریضوں کو باقی لوگوں سے علیحدہ کر دیا جاتا ہے

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

سید خرم رضا

سید خرم رضا

کورونا کا قہر جاری ہے اور پوری دنیا اس وبائی بیماری سے پریشان بھی ہے اور فکر مند بھی ہے۔ حکومتوں کو جو سمجھ میں آ رہا ہے وہ کر بھی رہی ہیں۔ ہندوستان میں اس مرض کے کمیونٹی میں پھیلنے کے کوئی پختہ شواہد نہیں ملے ہیں لیکن ابھی اس سے پوری طرح انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہندوستانی حکومت جس طرح کے قدم اٹھا رہی ہے اس کی دو وجہ ہو سکتی ہیں ایک تو یہ کہ اس کے پاس کچھ ایسی معلومات ہیں جن تک عام آدمی کی رسائی نہیں ہے۔ دوسری یہ کہ شاید پوری دنیا کے حالات کو دیکھتے ہوئے احتیاط کے طور پر حکومت تعلیمی ادارے بندکرنے، دفعہ 144 نافذ کرنے، ٹرینیں، پروازیں منسوخ کرنے وغیرہ جیسے اقدام اٹھا رہے ہے۔ دونوں ہی باتوں میں وزن ہے اور علاج سے احتیاط ہمیشہ بہتر ہوتی ہے۔

ان حالات کے پیش نظر گزشتہ روز وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کیا اور اپنے انداز میں یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ عوام آنے والے دنوں کے لئے تیار رہے اور گھبرائے بغیر تحمل سے کام لے۔ یہ اچھا اور انتہائی ضروری قدم ہے لیکن بہت اچھا ہوتا اگر وزیر اعظم قوم سے خطاب کرنے سے پہلے ان تمام نمائندوں کے ساتھ ان حالات پر تبادلہ خیال کرتے جن کو عوام نے منتخب کر کے پارلیمنٹ میں بھیجا ہے یعنی ان کو کل جماعتی میٹنگ کرنی چاہئے تھی اور تمام منتخب نمائندوں کو اعتماد میں لینا چاہئے تھا۔ ایسا نہ کرنے سے یہ پیغام جاتا ہے کہ وہ اور ان کی پوری ٹیم سب سے زیادہ عقل مند ہے اور اس کو کسی سے مشورہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے!


وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں جس ’جنتا کرفیو‘ کا ذکر کیا ہے وہ عوام کو گھر میں رہنے کے لئے تیار کرنے کی ایک کوشش ہے اور بغیر گھبراہٹ پھیلائے یہ بہت اچھا اعلان ہے، لیکن شام کو پانچ بجے تالی بجا کر یا گھنٹی بجا کر ان لوگوں کا شکریہ ادا کر نے کا طریقہ ایسے ماحول میں مناسب نہیں کہا جا سکتا۔ وزیر اعظم کو چاہئے تھا کہ وہ ضروری کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کے لئے کچھ اعلان کرتے اور غریبوں کے لئے کوئی حکمت عملی تیار کرنے کی بات کی جاتی کیونکہ اگر کورونا پھیلتا ہے تو غریب ہی سب سے زیادہ متاثر ہوگا۔

وزیراعظم اور ان کی ٹیم کو معلوم ہے کہ سماج کا ایک طبقہ ملک کے ایک قانون (سی اے اے) کے خلاف مظاہرہ کر رہا ہے۔ ایک طرف مظاہرہ کرنے والوں کے کچھ تحفظات ہیں دوسری جانب پوری دنیا کورونا کی وبا سے پریشان ہے اور اس وبا نے ہمارے ملک میں بھی دستک دے دی ہے۔ ایسے حالات میں کیا ملک کے قائد کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ ان مظاہرین سے بھی اپیل کرتا کہ، ہمارے آپ کے اختلافات الگ ہیں لیکن یہ وقت ان اختلافات پر بات کرنے کا نہیں ہے، پہلے ہمارے ہر شہری کی جان اہم ہے، اس لئے اپنا یہ مظاہرہ فی الحال معطل کر دیں۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ وزیر اعظم نے ان مظاہرین کو اپنے خطاب سے ایسے ہی علیحدہ کر دیا جیسے کورونا کے مریضوں کو باقی لوگوں سے علیحدہ کر دیا جاتا ہے۔ کیا یہ مظاہرین ہندوستانی شہری نہیں ہیں جن کی فکر ملک کے وزیراعظم کو کرنی چاہئے!


وزیراعظم نے مرکز میں دوسری مرتبہ اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے پچھلے نعرے ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ کے ساتھ ایک نیا نعرہ جوڑا تھا ’سب کا وشواس (اعتماد)‘، یہ موقع تھا جب وہ یہ پیغام دیتے کہ انہوں نے ’سب کا اعتماد‘ کی بات محض نعرے کے لئے نہیں کی تھی بلکہ وہ حقیقی طور پر اس پر یقین اور عمل کرتے ہیں۔ کورونا ایسی وبا ہے جو نہ تو مذہب پوچھ کے آرہی ہے اور نہ اکثریت اور اقلیت میں تفریق کر رہی ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس وبا سے ہم سب مل کر لڑیں۔ اس کے ساتھ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جتنے بھی ملک بھر میں مظاہرے چل رہے ہیں ان کو کورونا کے قہر کے پیش نظر فی الحال معطل کر دیا جانا چاہئے اور جس طرح بھی انسانیت کی خدمت ہو سکتی ہے وہ کرنی چاہئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 20 Mar 2020, 10:11 AM