’مجھے فخر ہے کہ میں سیاسی قیدی کا بیٹا ہوں‘... ورنون گونزالویس کے بیٹے کا بیان

ورنون گونزالویس ایک معروف ایکٹیوسٹ ہیں اور وکیل بھی۔ حال ہی میں پولس نے ماؤنوازوں سے تعلق رکھنے کے شبہ میں انہیں دیگر 4 لوگوں کے ساتھ گرفتار کیا لیکن ان کے بیٹے نے کہا کہ انہیں اپنے والد پر فخر ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

ماؤ نوازوں سے تعلق کے شبہ میں ورنون گونزالویس کو مہاراشٹر پولس نے 28 اگست کو گرفتار کیا ۔ ان کی گرفتاری پر ان کے بیٹے ساگر گونزالویس نے کہا کہ پولیس کے ذریعہ ان کے والد پر جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ مضحکہ خیز اور بےبنیاد ہیں۔ ورنون ممبئی کے رہنے والے ہیں جو معروف سماجی کارکن اور پیشہ سے وکیل ہیں۔ پولس نے ماؤنوازوں سے تعلق رکھنے کے الزام میں ان سمیت چار لوگوں کو گرفتار کیا ہے ۔

ساگر گونزالویس نے کہا کہ لوگ عبدالکلام، کلپنا چاؤلہ جیسی شخصیات کو اپنا ہیرو مانتے ہیں لیکن ان کے لئے ان کے والد ہی سب سے بڑے ہیرو ہیں ۔ ساگر نے کہا ’’ جب میں ان مقامات پر گیا جہاں میرے والد کام کرتے ہیں تو میں نے دیکھا کہ لوگ میرے والد کی کتنی عزت کرتے ہیں۔ حال ہی میں مجھے گاندھی فیلوشپ ملی، جس کی وجہ سے میں نے دیہاتی علاقہ میں کام کیا ۔ میری خواہش ہے کہ میں بھی اپنے والد کی طرح اسی حلقہ میں کام کرتا رہوں ‘‘۔

جب صحافیوں نے ان سے گھر میں نظر بند ہونے کی وجہ سے آنے والی دقتوں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ’’میری کالونی میں عام مڈل کلاس کے لوگ رہتے ہیں لیکن اب یہاں پر پولس اور میڈیا کے لوگ آتے رہتے ہیں ۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہماری کالونی کے لوگوں کو کسی طرح کی کوئی پریشانی ہو اس لئے مجھے ان کے لئے برا محسوس ہوتا ہے ۔ کالونی کے لوگ ہماری حمایت میں ہمارے ساتھ کھڑے ہیں‘‘۔

جب ساگر سے یہ پوچھا گیا کہ جب پولس والے ان کے والد کو گرفتار کرنے آئے تو ان کی والدہ نے ان کو چائے پلائی؟ تو ساگر نے کہا ’’میرے والد کافی سکون پسند شخص ہیں۔ ان کے چہرے پر ہمیشہ مسکان رہتی ہے۔ 2007 میں جب میرے والد کو گرفتار کیا گیا تھا تو اس وقت ان کے ساتھ کافی بد سلوکی کی گئی تھی ۔ اس وقت پولس نے میری والدہ کو دھمکایا تھا کہ کچھ کیا تو بہت برا ہو گا ۔ اس وقت میری عمر 12 سال تھی لیکن اس مرتبہ ویسا نہیں ہے ۔ اس مرتبہ پولس والوں کا برتاؤ کافی اچھا تھا ‘‘۔

ساگر نے کہا ’’مجھے فخر ہے کہ میں ایک سیاسی قیدی کا بیٹا ہوں۔ وہ میرے ہیرو ہیں ‘‘۔ ساگر نے بتایا کہ ا ن کو فیس بک پر بہت نفرت آمیز حملوں کو سہنا پڑتا ہے لیکن یہ سب چیزیں انہیں روک نہیں سکتیں ‘‘۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔