میں نے حکومت سے پوچھا تھا کہ ای وی ایم کا ’سورس کوڈ‘ کس کے پاس ہے، لیکن آج تک جواب نہیں ملا: منیش تیواری
منیش تیواری نے لوک سبھا میں ’انتخابی اصلاحات‘ پر بحث کے دوران کہا کہ آج انتخابات سے قبل لوگوں کے اکاؤنٹس میں پیسے ڈالے جاتے ہیں۔ اس عمل سے سوال پیدا ہو رہا ہے کہ آخر یہ کیسی جمہوریت ہے؟

لوک سبھا میں آج ’انتخابی اصلاحات‘ پر بحث چل رہی ہے، جس میں کانگریس رکن پارلیمنٹ منیش تیواری نے بی جے پی حکومت کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کو بھی نشانے پر لیا۔ انھوں نے ایوانِ زیریں میں اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ ’’آئین بنانے والوں نے غیر جانبدار ادارہ کے طور پر الیکشن کمیشن تشکیل دی تھی، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج ملک میں الیکشن کمیشن پر سوالیہ نشان کھڑے ہو رہے ہیں۔ آج ملک کی کئی ریاستوں میں ایس آئی آر ہو رہا ہے، لیکن الیکشن کمیشن کے پاس اس عمل کو انجام دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔‘‘
ایس آئی آر معاملے پر مرکز کی مودی حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کرتے ہوئے منیش تیواری نے کہا کہ ’’حکومت کو ملک کے سامنے وہ وجوہات رکھنی چاہئیں کہ آخر ایس آئی آر کیوں ہو رہا ہے؟ اس کے علاوہ ای وی ایم بھی بڑا ایشو ہے، کیونکہ لوگوں کے ذہن میں کئی سوالات ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’میں نے ایوان میں حکومت سے سوال پوچھا تھا کہ ای وی ایم کا ’سورس کوڈ‘ کس کے پاس ہے، لیکن اس کا جواب آج تک نہیں ملا۔‘‘
کانگریس رکن پارلیمنٹ نے ای وی ایم سے متعلق اندیشوں کا ذکر بھی لوک سبھا میں کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’آج ای وی ایم کو لے کر اندیشوں کو ختم کرنے کے کچھ طریقے ہیں... یا تو 100 فیصد وی وی پیٹ کی گنتی ہو، یا پھر بیلٹ پیپر سے انتخاب کرائے جائیں۔‘‘ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’اگر ای وی ایم میں سب کچھ ٹھیک ہے تو 6 ریاستوں میں ہونے والے انتخابات بیلٹ پیپر سے کرا لیے جائیں، پھر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔‘‘
بہار اسمبلی انتخاب کے دوران خواتین کے اکاؤنٹس میں رقم ڈالے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے منیش تیواری نے کہا کہ ’’آج انتخابات سے قبل لوگوں کے اکاؤنٹس میں پیسے ڈالے جاتے ہیں۔ اس سے سوال پیدا ہو رہا ہے کہ آخر یہ کیسی جمہوریت ہے؟ میرا مطالبہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے افسران کا انتخابی عمل تبدیل کیا جائے۔‘‘ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے ایس آئی آر کا عمل فوری طور پر بند کیے جانے اور انتخاب سے قبل ڈائریکٹر کیش ٹرانسفر روکنے کا مطالبہ بھی مضبوطی کے ساتھ رکھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔