بھاكھڑا ڈیم کے پانی کی وجہ سے دریائے ستلج میں سیلاب، پنجاب کے سینکڑوں گاؤں تباہ

اگروال نے بتایا کہ بورڈ بھاكھڑا ڈیم ذخائر میں پانی کے بہاؤ کی مسلسل نگرانی کر رہا ہے۔ اس کے مطابق ہی ڈیم سے چھوڑے جا رہے پانی کا جائزہ ہر گھنٹہ لیا جا رہا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

بھاكھڑا بیاس مینجمنٹ بورڈ میں شریک ریاستوں کے ارکان کا خیال ہے کہ مانسون کی رخصتی کا ابھی ایک مہینہ باقی ہے اور آبی ذخائر کی سطح کو کم از کم پانچ فٹ تک یعنی تقریبا 1675 فٹ تک لایا جائے جس سے مستقبل میں سیلاب کے امکان سے نمٹا جا سکے اور بھاكھڑا ڈیم کے جھکاؤ کو بھی کنٹرول کیا جاسکے۔

بورڈ کے سکریٹری ترون اگروال نے صحافیوں سے کہا کہ بورڈ نے گزشتہ 4 برسوں میں سب سے زیادہ خوفناک سیلاب کو کنٹرول پانی چھوڑنے کے عمل کو کامیابی کے ساتھ سنبھال لیا ورنہ حالات اور بھی زیادہ خراب ہو سکتے تھے۔ صورت حال کو بہتر اورپروفیشنل طریقے سے سنبھالا گیا اور نقصان کم سے کم ہو، اس کے لئے کوششیں کی جارہی ہیں۔


انہوں نے کہا کہ آج صبح چھ بجے بھاكھڑا ذخائر کی آبی سطح 1679.5 فٹ تھی۔ ہماچل پردیش میں بارش کا دور تھمنے سے بھاكھڑا ڈیم میں بہاؤ کم ہوا ہے پھر بھی تقریباً 50 ہزار سے 60 ہزار کیوسک پانی اب بھی آرہا ہے۔ گزشتہ 17-18 اگست کی آدھی رات میں ایک حیرت انگیز ہائیڈرولوجیکل واقعہ پیش آیا جس نے بھاكھڑا ڈیم کے بہاؤ کو تقریباً 311130 کیوسک بڑھا دیا، جس سے 19 اگست کو آبی سطح 1681.33 فٹ تک پہنچ گئی۔ یہ بہاؤ سال 1988 سے زیادہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ بیاس ستلج لنک پروجیکٹ کے ذریعہ بیاس دریا سے ستلج دریا میں 8400 کیوسک کے بہاؤ کو مکمل طور پر روک دیا گیا۔ بھاكھڑا ڈیم کی آبی سطح 1681.33 فٹ تک پہنچ جانے کی وجہ ڈیم کی حفاظت کو ذہن میں رکھتے ہوئے بورڈ کو 16 اگست سے ’سپل وے‘ کے ذریعہ 538 كيومیك (19000 کیوسک) کنٹرولڈ پانی چھوڑنا پڑا جو 19 اگست کو شام چار بجے بڑھ کر 1160 كيومیك (41000 کیوسک) ہو گیا۔ یہ ٹربائن کے ذریعہ بجلی کی پیداوار کے لیے چھوڑے جانے والے پانی سے زائد تھا۔


اگروال نے بتایا کہ بورڈ بھاكھڑا ڈیم ذخائر میں پانی کے بہاؤ کی مسلسل نگرانی کر رہا ہے۔ اس کے مطابق ہی ڈیم سے چھوڑے جا رہے پانی کا جائزہ ہر گھنٹہ لیا جا رہا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ بورڈ نے ستلج ندی میں پانی کے بہاؤ کو ذہن میں رکھتے ہوئے گزشتہ مئی اور جون میں بھی زیادہ پانی چھوڑا تھا۔ مانسون کی شروعات سے پہلے 25 جون تک آبی سطح کو 1624.18 فٹ سے 1604 فٹ تک تقریبا 20 فٹ نیچے لایا گیا تھا۔ ذخائر کی سطح، بہاؤ اور موجودہ صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے تکنیکی کمیٹی کی ایک خصوصی میٹنگ ہوئی جس میں ریجنل ڈائریکٹر، آئی ایم ڈی نے مطلع کیا کہ 18 اگست کو ہماچل پردیش کے بلاسپور، اونا، ہمیر پور اور شملہ اضلاع میں بالترتیب 252.5 ایم ایم، 147.7 ایم ایم، 134.7 ایم ایم اور 104.8 ملی میٹر بارش ہوئی۔ ان اضلاع میں بھاكھڑا ذخائر کے بہت قریب ہونے کی وجہ سے پانی کی سطح میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ بلاسپور اور اونا اضلاع کے ’کینچمنٹ ڈاؤن اسٹريم‘ میں بارش کے ساتھ ساتھ پنجاب میں ہونے والی بارش کی وجہ سے پنجاب کے علاقوں میں 20 ہزار کیوسیک سے زائد پانی آ گیا۔


قابل غور ہے کہ بھاكھڑا ذخائر سے پانی چھوڑنے کا سلسلہ اب بھی جاری رہے گا اور یہ پانی دریائےستلج کے ذریعے پنجاب کے ان اضلاع میں اور تباہی مچائےگا جہاں جهاں سے ستلج گزرتی ہے۔ ابھی تک تقریباً دو سو گاؤں ڈوبے ہوئے ہیں اور فصلوں کو تو جونقصان ہوا وہ الگ ہے، لیکن بے بس لوگوں کی حالت قابل رحم بنی ہوئی ہے۔ کچھ لوگ تو گھروں کی چھتوں پر وقت گزارنے پر مجبور ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ محفوظ مقامات پر چلے گئے ہیں۔ ریاستی حکومت کے ریلیف اور ریسکیو آپریشن جاری ہیں اور بھوکے پیاسے لوگوں کے لئے ہیلی کاپٹروں سے کھانے کے پیکٹ پھینکنے کا کام جاری ہے۔

اس درمیان پنجاب کے وزیر اعلی کیپٹن امریندر سنگھ نے ریاست میں سیلاب کی صورتحال تشویشناک ہونے کی وجہ سے وزیر اعظم نریندر مودی سے ایک ہزار کروڑ روپے کا خصوصی پیکیج دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے مودی کو لکھے خط میں ان سے درخواست کی ہے کہ مرکز متاثرہ گاؤں کے کسانوں کو ریلیف کے طور پر متعلقہ حکام کو متاثرہ کسانوں کا بینکوں اور مالیاتی اداروں سے لیا گیا زرعی قرض معاف کرنے کی ہدایات دیں۔ ریاست میں 1988 میں آئے سیلاب سے بھی یہ سیلاب خوفناک ہے۔


ریاست میں بھاری بارش اور بھاكھڑا ڈیم سے چھوڑے گئے پانی کی وجہ سے دریائے ستلج میں سیلاب آیا جس سے ریاست کے سینکڑوں گاؤں تباہ ہو گئے اور اتنے ہی خالی کرائے گئے۔ لہلہاتی فصل برباد ہوگئیں۔ماضی میں 1958 میں بھی سیلاب آیا تھا جس میں زبردست تباہی دیکھنے کو ملی تھی۔ اب تک اس سیلاب سے 1700 کروڑ سے زیادہ کا نقصان ہونے کا اندازہ ہے۔

متاثرہ علاقوں میں قدرتی آفات سے متاثرہ علاقہ دیئے جانے کے بارے میں وزیر اعلی نے کہا کہ فوج اور این ڈی آر ایف کی جانب سے ضروری مدد مل رہی ہے، اس کے باوجود سیلاب کا پانی گھٹنے کا نام نہیں لے رہا ہے جس کا اثر دیہی اور شہری علاقوں میں دیکھا جا رہا ہے۔ سیلاب کا سب سے زیادہ اثر فیروز پور، روپڑ، لدھیانہ، جالندھر، کپورتھلا اضلاع کے سو سے زائد دیہات میں پڑا ہے۔


وزیر اعلی نے کہا کہ انہوں نے ریاستی حکومت کے متعلقہ حکام کو مرکز سے خصوصی ریلیف پیکیج کے لئے مطالبہ نامہ تیار کرنے کی ہدایات دی ہیں۔ ریاست کے 326 گاؤں بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور سوا لاکھ ایکڑ میں کھڑی فصل برباد ہو گئی۔ فوج، این ڈی آر ایف اور ایس ڈی آر ایف کے جوان رات دن امداد اور بچاؤ کے کام میں مصروف ہیں۔ سیلاب سے فیروز پور اور جالندھر اضلاع سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ افسران حالات پر نظر رکھ رہے ہیں۔ ریاست میں راحت اور امدادی کام جنگی سطح پر جاری ہے اور اب تک متاثر گاؤوں سے 5023 لوگوں کو بچایا گیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔