کشمیر: عیدالفطر کے پیش نظر بازاروں میں لوگوں کی غیر معمولی بھیڑ

وادی میں دکاندار منہ بولے داموں پر مختلف چیزوں کو فروخت کر رہے ہیں کیونکہ متعلقہ حکام کی طرف سے جاری نرخوں اور دیگر حکم ناموں کو بالائے طاق رکھا گیا ہے۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

یو این آئی

سری نگر: عیدالفطر کے پیش نظر پیر کے روز گرمائی دارالحکومت سری نگر سمیت وادی کے تمام بازاروں میں دکانوں بالخصوص بیکری، مٹھائی اور قصابوں کی دکانوں پر لوگوں کا غیرمعمولی رش دیکھا گیا۔

تاہم دکاندار منہ بولے داموں پر مختلف چیزوں کو فروخت کر رہے ہیں کیونکہ متعلقہ حکام کی طرف سے جاری نرخ ناموں اور دیگر حکم ناموں کو بالائے طاق رکھا گیا ہے۔ روزہ کے باوصف بھی پیر کی صبح سے ہی وادی بالخصوص سری نگر کے بازاروں میں عید کے لئے خریداری کرنے کے لئے لوگوں کے اژدھام کو دیکھا گیا جو مختلف چیزوں خاص کر ملبوسات اور بیکری کی خریداری میں مصرف تھے۔


تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی

بیکری کی دکانوں کے باہر لوگوں کی قطاریں دیکھی گئی اور انہیں بے صبری سے اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اہلیان وادی عید کے لئے کروڑوں روپئے بیکری اور دوسری قسم کی مٹھائیاں خریدنے پر صرف کرتے ہیں۔

لطیف احمد صوفی نامی ایک بیکری دکان کے مالک نے یو این آئی کو بتایا 'خدا کا شکر ہے کہ لوگ حسب معمول بیکری خرید رہے ہیں، عید الفطر کے پیش نظر بیکری دکان پھر چار پانچ روز بند رہنے کی وجہ سے بھی لوگ زیادہ مقدار میں بیکری خریدتے ہیں'۔


تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی

لوگوں کی بھاری بھیڑ کی وجہ سے دن بھر کئی سڑکوں پر ٹریفک جام رہا۔ ادھر خوانچہ فروشوں نے بھی کورٹ روڑ سے ٹی آر سی کراسنگ تک اپنے ریڈی لگائے تھے جن سے ٹریفک کی نقل وحمل میں رکاوٹیں پیدا ہورہی تھی۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی

دریں اثنا انتظامیہ کی طرف سے گراں بازاروں کو قابو میں پانے کے تمام دعوؤں کے باوجود دکاندار گراں بازاری کررہے تھے۔ متعلقہ حکام نے گراں بازاری کرنے والوں کے خلاف لاکھوں روپئے جرمانہ عائد کیا لیکن اس کے بہت کم اثرات مرتب ہوتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔


حکام کی طرف سے گوشت کی فی کلو ریٹ 420 روپئے طے پانے کے باوجود بھی گوشت 500 سے 550 روپئے فی کلو فروخت کیا جارہا تھا۔ شبیر احمد نامی ایک قصاب نے الزام عائد کیا کہ انہیں حکام کو مویشیوں کی ایک ٹرک یہاں لانے کے لئے چھ سے آٹھ ہزار روپئے رشوت دینا پڑتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔