حکومت کو اب نہ تو پارلیمنٹ کی ضرورت ہے، نہ اراکین پارلیمنٹ کی!

اتوار کو راجیہ سبھا میں جو کچھ ہوا وہ پارلیمانی تاریخ میں اس وقت سیاہ باب کی شکل میں درج ہو گیا جب حکومت نے سبھی ضابطوں کو طاق پر رکھ کر سیاہ قانون پاس کرائے اور 'کسانوں کی موت کا وارنٹ' جاری کر دیا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

تسلیم خان

ہندوستان کی پارلیمانی تاریخ میں اتوار کا دن سیاہ باب کی شکل میں درج کیا جائے گا۔ اتوار کو جس طرح پارلیمانی روایات اور اخلاقیات کو طاق پر رکھ کر اراکین پارلیمنٹ کی آواز کو دبا کر حکومت نے منمانی کی، وہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ جمہوریت اب گزرے زمانے کی بات ہو گئی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ حکومت کے 6 وزیر پریس کانفرنس کرنے میدان میں اتریں، ٹھیکرا اپوزیشن کے سر پھوڑ دیں۔ اس اخلاقیات اور روایت کی دہائی دیں، جسے خود حکومت نے تار تار کر دیا۔

اتوار کو حکومت نے جس طرح راجیہ سبھا پر لات مار کر قبضہ کیا، ڈپٹی چیئرمین ہری ونش نارائن سنگھ کا جو رویہ رہا، اس سے صاف ہو گیا کہ حکومت کو نہ تو پارلیمنٹ کی ضرورت ہے نہ اراکین پارلیمنٹ کی۔ راجیہ سبھا میں زرعی بل پاس کرانے کے لیے حکومت نے جس ہتھکنڈے کا استعمال کیا وہ حکومت کی منمانی ظاہر کرتا ہے۔ کورونا کی آڑ میں پہلے ہی اراکین پارلیمنٹ کے، خصوصی طور سے اپوزیشن کے سوالوں کو ٹالنے کے لیے وقفہ سوالات کے ملتوی کا انتظام تھوپ کر حکومت اپنے ارادے ظاہر کر چکی تھی کہ اب پارلیمنٹ محض نام کی رہ گئی ہے، صرف رسم ادائیگی ہی ہوگی اور صرف ایک ہی پارٹی اور خصوصی طور سے ایک ہی شخص کی آواز سنی جائے گی، مانی جائے گی۔


ہندوستان کی آبادی میں تقریباً دو تہائی حصہ داری والے کسان کے حقوق کے بارے میں حکومت ایک قانون بنا رہی ہے اور انہی کسانوں، ان کے نمائندوں سے پوچھا تک نہیں جا رہا ہے کہ کیا یہ قانون ان کے مفادات کا تحفظ کر سکے گا یا نہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں جب بھی انگریز کوئی ایسا کام کرتے تو پورا ہندوستان ان کے خلاف کھڑا ہو جاتا، اور جلیاں والا باغ جیسے حادثے تک ہو جاتے۔ لیکن ایک جدید جمہوریت میں جب سب سے مضبوط حکومت ایسا کرے تو اسے کیا ہی نام دیا جائے۔

آئینی نظام ہے کہ حکومت کوئی بھی بل لائے گی تو اسے پاس کرانے سے پہلے اس بل سے جڑے سبھی اسٹیک ہولڈرس سے تبادلہ خیال ہوگا، غور و خوض ہوگا، ضروری ہوا تو اس میں تبدیلیاں ہوں گی، پھر پارلیمنٹ میں عوام کے نمائندہ کی شکل میں اراکین پارلیمنٹ کے درمیان بحث ہوگی، تب کہیں جا کر بل پاس ہوگا۔ لیکن زرعی بل، جو ملک کے کسان کی زندگی اور روزی روٹی کے ساتھ سیدھے جڑا ہے اس میں کسانوں سے بات کرنا تو دور، قانون بنانے والے اراکین پارلیمنٹ تک کو اپنی رائے رکھنے کا موقع نہیں دیا گیا۔


اپوزیشن نے بل پر بحث کے لیے ایوان کی کارروائی کو آگے بڑھانے کی گزارش کی، جسے خارج کر دیا گیا۔ اپوزیشن کے جن اراکین پارلیمنٹ کو اس پر اپنی بات رکھنی تھی، انھیں ایسا کرنے سے روکا گیا اور حد تو تب ہو گئی جب اراکین پارلیمنٹ نے بل پر ووٹنگ کی مانگ کی، ضابطوں کا حوالہ دیا، تو مارشل کو بلا کر اراکین پارلیمنٹ کو روک دیا گیا۔

ایوان کے اندر حکومت کی تاناشاہی کس طرح سے چل رہی تھی، یہ بات باہر نہ جا پائے اس کے لیے پہلے راجیہ سبھا ٹی وی کے نشریہ میں اپوزیشن اراکین پارلیمنٹ کی تقریر کی آواز بند کی گئی، اس کے بعد پوری کارروائی کا ہی نشریہ بند کر دیا گیا۔ اس کے بعد اپوزیشن کی ووٹ ڈویژن کے مطالبہ کو درکنار کر صوتی ووٹ سے بل پاس ہونے کا اعلان کر دیا گیا۔ بل پر نہ اپوزیشن کے اعتراض درج کیے گئے، نہ حکومت نے ان پر جواب دیا، اور سارے قوانین کو ٹھینگا دکھا کر بل کو پاس مان لیا گیا۔


قانون ہے کہ اگر کسی بھی بل پر کوئی ایک بھی رکن ووٹنگ کا مطالبہ کرے گا تو ووٹنگ ہوگی۔ یہ ذمہ داری ایوان کی کارروائی کو چلا رہے ڈپٹی چیئرمین کی تھی۔ لیکن وہ تو صرف برسراقتدار طبقہ کی ہی بات سنتے ہوئے نظر آئے۔

کانگریس جنرل سکریٹری اور ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے ٹھیک ہی طنز کیا ہے کہ "جس پارلیمنٹ کی چوکھٹ پر سر جھکا کر مودی جی نے پارلیمنٹ میں داخلہ کیا تھا، آج اسی پارلیمنٹ کو مودی حکومت نے شرمسار کر دیا۔ 3 سیاہ قوانین لا کر مودی حکومت نے ملک کے کسان و کھیت مزدور کے پیٹ و پیٹھ میں ایک تیز دھار والا خنجر گھونپ دیا ہے!"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */