تقریباً 19 لاکھ ووٹنگ مشینیں غائب!، بڑے گھوٹالے کا اندیشہ

حیدرآباد واقع ای سی آئی ایل اور بنگلورو واقع بی ای ایل سے الیکشن کمیشن الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں خریدتا ہے۔ ای وی ایم خریداری کے حوالہ سے دونوں کمپنیوں اور الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار میں بڑا فرق ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم )کی خریداری میں بڑی دھاندلی کا انکشاف ہو اہے۔ حق اطلاعات (آر ٹی آئی ) کے تحت مطلوب کردہ معلومات میں ای وی ایم فراہم کرنے والی دو کمپنیوں اور الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار میں نمایاں فرق ہے۔ آر ٹی آئی سے موصول ہوئی تفصیل کے مطابق کمپنیوں نے جتنی مشینوں کی فراہمی کی ہے اور الیکشن کمیشن کو جتنی مشینیں موصول ہوئی ہیں اس میں تقریباً 19 لاکھ کا فرق ہے۔

انتخابی کمیشن (ای سی) دو پبلک سیکٹر کے ای وی ایم کے سپلائرز الیکٹرانکس کارپوریشن آف انڈیا لمٹیڈ (ای سی آئی ایل)، حیدرآباد اور بھارت الیکٹرانکس لمٹیڈ (بی ای ایل )، بنگلور و سے ای وی ایم خریدتا ہے۔ تاہم دونوں کمپنیوں اور آر ٹی آئی میں دیئے گئے اعداد و شمار میں نمایاں فرق ہے۔

یہ آر ٹی آئی ممبئی کے ایس رائے نے داخل کی تھی۔ اس کے جواب میں انہیں جو معلومات حاصل ہوئیں ہیں اس سے معاملہ کافی الجھ گیا ہے اور ایک بڑی دھاندلی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ رائے نے بمبئی ہائی کورٹ سے پورے معاملہ کی تفتیش کا مطالبہ کیا ہے۔

رائے نے بتایا کہ 1989-1990 سے 2014-2015 تک کے اعداد و شمار پر غور کریں تو انتخابی کمیشن کا کہنا ہے کہ بی ای ایل سے 10 لاکھ 5 ہزار 662 مشینیں حاصل ہوئیں ۔ وہیں ، بی ای ایل کا کہنا ہے کہ اس نے 19 لاکھ 69 ہزار 932 مشینیں فراہم کی ہیں۔ دونوں اعداد و شمار میں 9 لاکھ 64 ہزار 270 کا فرق ہے۔

بالکل ایسی ہی صورتحال ای سی آئی کے ساتھ بھی ہے جس نے 1989 سے 1990 اور 2016 سے 2017 کے درمیان 19 لاکھ 44 ہزار 593 ووٹنگ مشینیں فراہم کیں ہیں۔ لیکن الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ انہیں محض 10 لاکھ 14 ہزار 644 مشینیں حاصل ہوئی ہیں اور یہاں 9 لاکھ 29 ہزار 949 کا فرق ہے۔

ای وی ایم پر خرچ کے اعداد و شمار میں بھی فررق

ایک سابقہ رپورٹ کے مطابق بی ای ایل سے ای وی ایم کی خریداری پر 536.02 کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں جبکہ بی ای ایل نے کہا کہ انہیں 652.56 کروڑ روپے حاصل ہوئے ہیں۔ یہاں ای وی ایم کی لاگت میں بڑا فرق بھی ہے ای سی آئی ایل سے ای وی ایم لینے کی انتخابی کمیشن کے اخراجات کی معلومات دستیاب نہیں ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ای سی آئی ایل نے بتایا کہ 2013-2014 اور 2016-2017 کے درمیان کسی بھی ریاست میں ایک بھی ای وی ایم کی فراہمی نہیں کی گئی۔ تاہم ای سی آئی ایل نے مارچ سے اکتوبر 2012 تک انتخابی کمیشن کے ذریعے مہاراشٹر حکومت سے 50.64 کروڑ روپے کی رقم وصول کی۔

رائے کا سوال ہے کہ آخر کار ای وی ایم فراہم کرنے والی دو کمپنیوں کے اعداد و شمار میں اس طرح کا بڑا فرق کیوں ہے؟ بی ای ایل اور ای سی آئی ایل کے ذریعہ فراہم کی جانے والی اضافی مشینیں آخر کہاں چلی گئیں ؟

پرانی ہو چکی ووٹنگ مشینوں کو ختم کرنے کے سوال پر بھی معقول جواب نہیں مل پا رہا ہے۔ 21 جولائی، 2017 کو الیکشن کمیشن نے کہا کہ اس نے کوئی پرانی ای وی ایم فروخت نہیں کی ہے۔ وہیں یہ تصور کیا جا رہا ہے کہ 1989-1990 کی ای وی ایم کو مینوفیکچررز نے خود ہی تباہ کر دی تھیں۔ انتخابی کمیشن نے کہا ہے کہ 2000-2005 کے درمیان ملی ای وی ایم (پرانی/ خراب / نامکمل) کو ٹھکانے لگانے کا عمل ابھی تک زیر غور ہے ۔ یعنی اس سے صاف ہے کہ تمام مشینیں ابھی تک انتخابی کمیشن کے پاس موجود ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔