نوٹ بندی پر سپریم کورٹ میں پیش کیے گئے مرکز کے حلف نامہ میں کتنا دم ہے؟

سابق آر پی آئی گورنر رگھورام راجن نے کہا تھا کہ انہوں نے کبھی بھی نوٹ بندی کی حمایت نہیں کی اور مودی حکومت کو نوٹ بندی کے خطرات سے خبردار کیا تھا

نوٹ بندی، تصویر سوشل میڈیا
نوٹ بندی، تصویر سوشل میڈیا
user

حیدر علی خان

نوٹ بندی پر سپریم کورٹ میں وقت پر حلف نامہ داخل نہ کرنے پر 9 نومبر کو ہونے والی فضیحت کے بعد آخر کار مرکز کی مودی حکومت نے بدھ کو عدالت میں حلف نامہ پیش کیا۔ حلف نامے میں مودی حکومت نے اپنا دفاع کرتے ہوئے نوٹ بندی کے فوائد شمار کیے ہیں۔ حکومت نے عدالت کو بتایا کہ نوٹ بندی کے نفاذ سے 8 ماہ قبل آر بی آئی سے مشورہ کیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ میں داخل اپنے حلف نامہ میں حکومت نے کہا، ’’نوٹ بندی پر آر بی آئی کے ساتھ اچھی طرح سے تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔ اس وقت کے وزیر خزانہ نے پارلیمنٹ میں بتایا تھا کہ فروری 2016 میں ہی اس پر آر بی آئی سے مشاورت شروع ہو گئی تھی اور مشاورت و فیصلوں  کو خفیہ رکھا گیا تھا۔‘‘

مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کو یہ بھی بتایا کہ نوٹ بندی کا فیصلہ آر بی آئی کی سفارش اور 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کو واپس لینے کے تجویز کردہ منصوبے پر مبنی تھا۔ نوٹ بندی پر سپریم کورٹ میں دائر مرکزی حکومت کے حلف نامہ میں 3 باتیں قابل غور ہیں:

پہلی: نوٹ بندی کے نفاذ سے 8 ماہ قبل آر بی آئی سے مشورہ کیا گیا تھا۔

دوسری: نوٹ بندی پر آر بی آئی کے ساتھ اچھی طرح سے تبادلہ خیال کیا گیا۔

تیسری: نوٹ بندی کا فیصلہ آر بی آئی کی سفارش اور 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کو واپس لینے کے تجویز کردہ منصوبے پر مبنی تھا۔


نوٹ بندی پر سپریم کورٹ میں پیش کیے گئے حلف نامہ میں مودی حکومت کے دعوؤں کی کیا صداقت ہے، اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں ماضی میں جھانکنا ہوگا۔ رگھورام راجن 4 ستمبر 2013 سے 4 ستمبر 2016 تک آر بی آئی کے گورنر رہے۔ ملک میں نوٹ بندی 8 نومبر 2016 کو نافذ کی گئی تھی۔ یعنی رگھورام راجن نے نوٹ بندی کے لاگو ہونے سے دو ماہ قبل RBI گورنر کا عہدہ چھوڑ دیا یا یوں کہہ لیں کہ ان کی میعاد ختم ہو چکی تھی۔ مرکزی حکومت کے مطابق، نوٹ بندی پر آر بی آئی کے ساتھ مشاورت فروری 2016 میں ہی شروع ہوئی تھی۔

2007 میں حکومت کے ذریعہ پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق، رگھورام راجن نوٹ بندی کے نفاذ سے پہلے آر بی آئی کے ساتھ مشاورت کے پورے عمل کے دوران بحیثیت  آر بی آئی کے گورنر تھے۔

ایسے میں، نوٹ بندی پر سپریم کورٹ میں مرکزی حکومت کی طرف سے پیش کردہ حلف نامہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے، آر بی آئی  کے سابق گورنر رگھورام راجن کے ان بیانات کو یاد رکھنا ضروری ہے، جو انہوں نے آر بی آئی  گورنر کا عہدہ چھوڑنے کے بعد دیا تھا۔ ان کے بیانات کو یاد کرنے سے حکومت کے دعوؤں کو سمجھنے میں کافی مدد ملے گی۔

گورنر کا عہدہ چھوڑنے کے ایک سال بعد 2017 میں نوٹ بندی پر رگھورام راجن کا ردعمل آیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ انہوں نے کبھی بھی نوٹ بندی کی حمایت نہیں کی اور نریندر مودی حکومت کو نوٹ بندی کے خطرات سے خبردار کیا تھا۔ حکومت کو خبردار کیا گیا تھا کہ نوٹ بندی کے فیصلے سے  طویل مدت میں بہت زیادہ نقصان ہوگا ۔ اس کے باوجود مرکزی حکومت نے نوٹ بندی کا راستہ اختیار کیا۔


رگھورام راجن نے یہ ساری باتیں اپنی کتاب 'I Do What I Do: On Reforms Rhetoric and Resolve' میں کہی ہیں۔ کتاب کے مطابق، ان سے اختلاف کے باوجود مرکزی حکومت نے اس معاملے پر ایک نوٹ تیار کرنے کو کہا تھا۔ آر بی آئی نے نوٹ تیار کر کے حکومت کے حوالے کر دیا ۔ اس کے بعد حکومت نے اس پر فیصلہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی۔

سابق آر بی آئی گورنر رگھو رام راجن نے یہ بھی انکشاف کیا کہ کمیٹی میں صرف ڈپٹی گورنر کو شامل کیا گیا تھا جو آر بی آئی کی طرف سے کرنسی کا سودا کرتے تھے، جس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ راجن نے خود ان میٹنگوں میں حصہ نہیں لیا تھا۔ ایسے میں حکومت نے سپریم کورٹ میں جو حلف نامہ پیش کیا ہے اس کی طاقت کا اندازہ رگھورام راجن کے ان انکشافات  سے لگایا جا سکتا ہے۔

مرکزی حکومت نے نوٹ بندی کے نفاذ کے پیچھے جعلی نوٹوں اور دہشت گردی کی فنڈنگ ​​کے خلاف لڑائی کا بھی حوالہ دیا تھا۔ نوٹ بندی کے بعد ریزرو بینک نے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ نوٹ بندی کے بعد 500 اور 1000 کے پرانے نوٹوں میں سے 99 فیصد واپس آچکے ہیں۔ اس کے ساتھ محکمہ انکم ٹیکس نے بھی کوئی قابل ذکر کالا دھن نہیں پکڑا۔ یہ اعداد و شمار نوٹ بندی کی مکمل ناکامی کو ثابت کرتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔