ہم جنس پرستوں کو نہ شادی کی اجازت اور نہ بچہ گود لینے کا اختیار، سپریم کورٹ کا فیصلہ

سپریم کورٹ نے منگل کو ہم جنس پرستوں کی شادی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ قانون سازی حکومت کا کام ہے اور اگر حکومت چاہے تو اس پر پارلیمنٹ سے قانون منظور کر سکتی ہے

<div class="paragraphs"><p>سپریم کورٹ، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

سپریم کورٹ، تصویر آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے منگل کو ہم جنس پرستوں کی شادی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ قانون سازی حکومت کا کام ہے اور اگر حکومت چاہے تو اس پر پارلیمنٹ سے قانون منظور کر سکتی ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ حکومت ایک کمیٹی بنا سکتی ہے، جو ہم جنس جوڑوں سے متعلق خدشات کو دور کرے گی اور ان کے حقوق کو یقینی بنائے گی۔

پانچ ججوں پر مشتمل بنچ نے اکثریت سے فیصلہ دیا ہے کہ ہم جنس پرست جوڑوں کو بچہ گود لینے کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستوں کی شادی کو تسلیم نہ کرنے پر اسپیشل میرج ایکٹ اور فارن میرج ایکٹ کو ختم کرنے سے انکار کر دیا۔ سپریم کورٹ کا ماننا ہے کہ ایک ٹرانس جینڈر شہری کو موجودہ قوانین کے تحت مخالف جنس کے شہری سے شادی کرنے کا حق ہے، یعنی ایک ہم جنس پرست لڑکا ایک لڑکی سے شادی کر سکتا ہے۔


قبل ازیں، سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی حیثیت دینے والی درخواستوں پر اپنا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں پانچ ججوں کی بنچ نے مئی کے مہینے میں 10 دن تک اس کیس کی سماعت کی۔ اس کے بعد اس نے 11 مئی کو اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا اور آج اس فیصلے کا اعلان کیا گیا۔

سی جے آئی چندر چوڑ کے علاوہ بنچ کے دیگر ارکان میں جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس ایس رویندر بھٹ، جسٹس ہیما کوہلی اور جسٹس پی ایس نرسمہا شامل ہیں۔ جسٹس ہیما کوہلی کے علاوہ باقی چار ججوں نے فیصلہ پڑھا۔ اس معاملہ پر سپریم کورٹ نے کل چار فیصلے دیے ہیں۔


ججوں نے کیا کیا کہا؟

چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ:

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم جنس پرستی ایک ایسا موضوع ہے جو صرف شہر کے اعلیٰ طبقے تک محدود نہیں۔ اس معاشرے کے لوگ ہر جگہ موجود ہیں۔ انہوں نے حکومت سے اس شادی کو قانونی حیثیت دینے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا کام شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔ شادی کو قانونی حیثیت حاصل ہے لیکن اسے بنیادی حق نہیں کہا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 200 سالوں میں شادی میں بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں۔

چیف جسٹس نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ہم جنس پرستوں کی شادی کے لیے اسپیشل میرج ایکٹ کو منسوخ کرنا غلط ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ حکومت ایسے رشتوں کو قانونی حیثیت دے، تاکہ انہیں ان کے ضروری حقوق مل سکیں۔ سی جے آئی نے کہا کہ ہر کسی کو اپنا ساتھی چننے کا حق ہے۔ جس طرح دوسروں کو یہ حق ملا ہے اسی طرح ہم جنس پرست برادری کو بھی اپنے ساتھی کے ساتھ رہنے کا حق حاصل ہے۔ آرٹیکل 21 کے تحت یہ بنیادی حق ہے۔

فیصلے میں، سی جے آئی نے کہا کہ غیر شادی شدہ جوڑوں کو بچہ گود لینے سے روکنے کی شق غلط ہے، جس کی وجہ سے ہم جنس پرست جوڑوں کو بھی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ آرٹیکل 15 کی خلاف ورزی ہے۔

سی جے آئی نے کہا کہ حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہم جنس پرستوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہ ہو۔ ابتدائی تفتیش مکمل ہونے پر ہی ایسے جوڑے کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے۔ پولیس کو ہم جنس پرستوں کی مدد کرنی چاہیے۔

چیف جسٹس نے اپنے فیصلے میں سفارش کی کہ مرکزی حکومت ایک کمیٹی بنائے، جس کا کام ایک ایسا نظام بنانا ہوگا جس میں ہم جنس پرست جوڑوں کو راشن کارڈ، بینک میں نامزد ہونے، طبی ضروریات کے لیے فیصلے لینے، پنشن وغیرہ جیسے فوائد مل سکیں۔


جسٹس سنجے کشن کول نے اپنے فیصلے میں کیا کہا؟

جسٹس کول نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ہم جنس پرستی قدیم زمانے سے موجود ہے۔ ہم جنس پرستوں کو بھی قانونی حقوق ملنے چاہئیں۔ حکومت اس کے لیے ایک کمیٹی بنائے۔ تاہم، میں اس نظریے سے متفق نہیں ہوں کہ اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت ایسی شادیوں کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔

فیصلے میں جسٹس کول نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم جنس پرست برادری کے خلاف تاریخی امتیاز کو دور کیا جائے۔ ان کی شادی کو تسلیم کرنا بھی ایک قدم ہو سکتا ہے لیکن میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ ایک کمیٹی بنائی جائے اور ہم جنس پرستوں کو قانونی حقوق دینے پر غور کیا جائے۔

جسٹس کول نے کہا کہ وہ چیف جسٹس سے پوری طرح متفق ہیں کہ امتیازی سلوک کے خلاف قانون کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’انسداد امتیازی قانون کے لیے میری تجاویز یہ ہیں کہ اسے باہمی تفریق کو دور کرنا چاہیے۔ ہم جنس پرست جوڑوں کو شادی کے لیے تسلیم کرنا مساوات کی طرف پہلا قدم ہے۔‘‘

جسٹس ایس رویندر بھٹ کے فیصلے کے اہم نکات:

جسٹس بھٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ’’میں چیف جسٹس سے متفق ہوں کہ شادی بنیادی حق نہیں ہے۔ لیکن میں مانتا ہوں کہ رشتہ رکھنا ایک حق ہے۔ ہم حکومت کو قانون بنانے کا حکم نہیں دے سکتے۔ تاہم، ہم سمجھتے ہیں کہ ہم جنس پرستوں کو بھی اپنے ساتھی کا انتخاب کرنے اور اس کے ساتھ رہنے کا حق حاصل ہے۔


جسٹس بھٹ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں چیف جسٹس کے اس حکم سے اتفاق نہیں کرتا کہ ہم جنس پرست جوڑوں کو بچہ گود لینے کا حق ملنا چاہیے۔ سی جے آئی نے گود لینے کا حق دینے کی وکالت کی تھی۔ جسٹس رویندر بھٹ نے یہ بھی کہا کہ حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ہم جنس پرستوں کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہ ہو۔ لیکن ساتھ رہنے کو قانونی حیثیت نہیں دی جا سکتی۔

جسٹس پی ایس نرسمہا نے اپنے فیصلے میں کیا کہا؟

جسٹس پی ایس نرسمہا نے کہا ’’میں بھی جسٹس بھٹ سے متفق ہوں لیکن میرے فیصلے میں کچھ مختلف نکات بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شادی بنیادی حق نہیں ہے۔ اگر کوئی کسی کے ساتھ رہنا چاہتا ہے تو وہ ایسا کر سکتا ہے۔ اپنے فیصلے میں جسٹس نرسمہا نے کہا کہ میں جسٹس بھٹ سے متفق ہوں کہ ہم جنس پرست جوڑوں کو بچہ گود لینے کا حق نہیں مل سکتا۔ انہوں نے کہا کہ شادی کا کوئی ناقابل تنسیخ حق نہیں ہے۔ جسٹس ہیما کوہلی نے بھی جسٹس بھٹ سے اتفاق کیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔