اب تاریخ کو نئے سرے سے لکھنا چاہتے ہیں امت شاہ!

امت شاہ کا خیال ہے کہ انگریزی اور بائیں بازو کے مصنفین نے ہندو حکمرانوں اور ثقافت کے ساتھ ناانصافی کی ہے لہذا اسے اب اپنے نکتہ نظر سے لکھے جانے کی اشد ضرورت ہے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

وارانسی: مرکزی وزیر امت شاہ تاریخ کو از سر نو لکھنے کے خواہشمند ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ انگریزی اور بائیں بازو کے مصنفین نے ہندو حکمرانوں اور ثقافت کے ساتھ ناانصافی کی ہے لہذا اسے اب اپنے نکتہ نظر سے لکھے جانے کی اشد ضرورت ہے۔

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے دنیا میں ہندوستانی ثقافت کو اول مقام دلانے کا سہرا موریہ خاندان اور گپت خاندان کو دیتے ہوئے شہنشاہ اسکند گپت کی طاقت اور حکومت چلانے کے ان کے فن کا ذکر کیے جانے اور ملک کی قابل فخر تاریخ کو ریفرنس بک بنا کر پھر سے لکھنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔


امت شاہ نے بنارس ہندو یونیورسٹی (بی ایچ یو) میں جمعرات کو ’گپت ونش: ویر اسکند گپت وکرم آدتیہ‘ موضوع پر منعقد دو روزہ بین الاقوامی سیمینار کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ مہا بھارت دور کے دو ہزار سال بعد 800 سال کی مدت کو دو اہم حکومتی انتظامیہ موریہ خاندان اور گپت خاندان کی وجہ سے جانا گیا۔ دونوں خاندانوں نے ہندوستانی ثقافت کو اس وقت دنیا میں سب سے اونچے مقام پر پہنچا دیا۔

انہوں نے کہا کہ گپت سلطنت کی سب سے بڑی کامیابی ہمیشہ کے لئے ویشالی اور مگدھ سلطنت کے درمیان ٹکراؤ کو ختم کر کے اٹوٹ ہندوستان کی تعمیر کرنا تھا۔ چندر گپت وکرم آدتیہ کو شہرت ملنے کے باوجود لگتا ہے کہ ان کے ساتھ تاریخ میں بہت ناانصافی ہوئی ہے۔ ان کی ہمت اور طاقت کی جتنی ستائش ہونی تھی شاید وہ نہیں ہوئی شہنشاہ اسکند گپت نے ہندوستان کی ثقافت، زبان، فن، ادب، حکومتی نظام، شہروں کی تعمیر کے نظام کو ہمیشہ بچانے کی کوشش کی ہے لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ آج اسکند گپت پر مطالعے کے لئے کوئی 100 پیج بھی مانگے گا تو دستیاب نہیں ہیں۔


وزیرداخلہ نے تاریخ سازوں سے اپیل کی کہ وہ ملک کی قابل فخر تاریخ کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرنے والے انگریزوں اور بائیں بازو محاذ کے لوگوں کو سننا بند کریں اور اس تاریخ کو سچ کی بنیاد پر لکھیں جن کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنڈت مدن موہن مالویہ نے جب کاشی ہندویونیورسٹی قائم کی تب ان کی جو بھی سوچ رہی ہو لیکن قیام کے اتنے برس بعد بھی یہ یونیورسٹی ہندو ثقافت کو برقرار رکھنے کےلئے قدم جمائے ہوئے ہے اور ہندو ثقافت کو آگے بڑھا رہی ہے۔

آزادی کی لڑائی میں ویر ساورکر کے تعاون کا ذکر کرتے ہوئے شاہ نے کہا کہ ویر ساورکر نہ ہوتے تو 1857 کا انقلاب بھی تاریخ کا حصہ نہیں بنتا، اسے بھی ہم انگریزی کے نظریہ سے دیکھتے ہیں۔ ویر ساورکر نے ہی 1857 جو پہلے انقلاب آزادی کا نام دیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 17 Oct 2019, 9:00 PM