معروف مورخ پروفیسر مشیر الحسن سپرد خاک

پدم شری پروفیسر مشیر الحسن کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا، قبل ازیں باب العلم مسجد اوکھلا میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔

تصویر قومی آواز/ وپین
تصویر قومی آواز/ وپین
user

یو این آئی

نئی دہلی: معروف مورخ، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلراور نیشنل آرکائیوز کے سابق ڈائریکٹر جنرل پدم شری پروفیسر مشیر الحسن کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔قبل ازیں باب العلم مسجد اوکھلا میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔

تصویر قومی آواز/ وپین
تصویر قومی آواز/ وپین

تدفین کے موقع پر مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے افراد بڑی تعداد میں موجود تھے۔ان میں سابق نائب صدر محمد حامد انصاری، دہلی کے سابق لفٹننٹ گورنر نجیب جنگ، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر شاہد مہدی اور موجود ہ وی سی شاہد احمد کے علاوہ دہلی یونیورسٹی اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے کئی اہم اساتذہ اور دانشور موجود تھے۔

پروفیسر مشیرالحسن کا آج صبح یہاں ان کی رہائش گاہ پر انتقال ہوگیا تھا۔ ان کی عمر 69برس تھی۔پسماندگان میں اہلیہ پروفیسر زویا حسن ہیں جو جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں سیاسیات کی استاذ ہیں۔

پروفیسر حسن کافی دنوں سے علیل تھے۔ سال 2014 میں ایک حادثے کی وجہ سے بیمار ہوجانے کے بعد وہ مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہو پائے۔

تصویر قومی آواز/ وپین
تصویر قومی آواز/ وپین

پروفیسر مشیرالحسن صاحب 15 اگست 1949 کو بلاس پور میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی آگئے جہاں سے انھوں نے 1969 میں ایم. اے کیا اور پھر 1977 میں کیمبرج یونی ورسٹی سے پی ایچ. ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

پروفیسرمشیر الحسن موجودہ عہد کے ممتاز مورّخوں اور دانش وروں میں شمار ہوتے تھے۔ وہ تاریخ کے بہترین استاد ہونے کے ساتھ ساتھ اعلا پایے کے محقق بھی تھے۔ وہ تقریباً 30 سال تک جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ تاریخ میں درس و تدریس کی خدمت انجام دیتے رہے، بعد میں وہ اسی یونیورسٹی میں 2004 سے 2009 تک وائس چانسلر کی حیثیت سے بھی وابستہ رہے۔ انہوں نے اپنی مدت کار کے دوران یونیورسٹی کو ایک نئی شناخت دلائی۔مئی 2010 میں وہ نیشنل آرکائیوز آف انڈیا کے ڈائرکٹر جنرل مقرر ہوئے۔2007 میں وہ پدم شری کے اعزاز سے بھی سرفراز کیے گئے۔

پروفیسر مشیر الحسن نے تقسیم ہند اور جنوبی ایشیا میں اسلام کی تاریخ پر قابل قدر کام کیا ہے۔انہوں نے 50 سے زائد کتابیں تصنیف کیں جن میں نیشنلزم اینڈ کمیونل پالیٹکس ان انڈیا 1885۔1930، دی لیگیسی آف اے ڈیوائڈیڈ نیشن: انڈیاز مسلم سنس انڈی پینڈینس اہم ہیں۔

2005 میں پروفیسر مشیرالحسن کی ایک کتاب A Moral Reckoning اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس، نئی دہلی سے شائع ہوئی تھی جس کا اردو ایڈیشن انجمن ترقی اردو (ہند) نے 2006 میں ’دہلی کے مسلمان دانش ور (انیسویں صدی میں)‘ کے نام سے شائع کیا۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو)کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے پروفیسر مشیر الحسن کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔پروفیسر طارق منصور نے کہا کہ پروفیسر حسن کے سانحۂ ارتحال سے جدید و معاصر تاریخ کے دانشوروں کی دنیا میں ایک بڑا خلاء پیدا ہوگیا ہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پروفیسر مشیر الحسن نے اپنی اسکولی تعلیم اے ایم یو کے ایس ٹی ایس اسکول سے حاصل کی۔ بعد میں انہوں نے بی اے اور ایم اے( تاریخ) کی ڈگری بھی اے ایم یو سے ہی حاصل کی۔ پروفیسر مشیر الحسن نے پی ایچ ڈی کی ڈگری انگلینڈ کی کیمبرج یونیورسٹی سے حاصل کی۔ ان کی پی ایچ ڈی تھیسس ’’ہندوستان میں قومیت اور فرقہ پرستی پر مبنی سیاست‘‘ کافی مشہور ہوئی اور جب اسے کتابی شکل میں شائع کیا گیا تواس کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے اس کے علاوہ تقسیمِ ہند پران کے تحقیقی عمل کو دنیا بھر کے دانشوروں نے بڑے پیمانے پر سراہا۔

تصویر قومی آواز/ وپین
تصویر قومی آواز/ وپین

مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر پروفیسر اخترالواسع نے انتہائی دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے ایک ذاتی نقصان قرار دیا ہے۔انہوں نے اپنے ایک تعزیتی بیان میں کہا ہے کہ پروفیسر مشیرالحسن ہندوستان کے عہد جدید کے ایک معتبر و مستند ماہرِ تاریخ داں تھے۔ ان کا یہ بڑا کارنامہ ہے کہ انہوں نے ڈاکٹر مختار احمد انصاری، حکیم اجمل خاں، مولانا محمد علی جوہر، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور ترک ادیبہ خالدہ ادیب خانم پر اپنے وقیع کام کے ذریعہ مسلمانوں کے رول کو نمایاں کیا اور تحریک آزادی میں ان کی خدمات کے ذریعہ ان کو تاریخ میں مرکزی حیثیت دلانے کی کامیاب کوشش کی۔

پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر کی حیثیت سے ان کا دور اس اعتبار سے یادگاری ہے کہ ان کے زمانے میں علمی اور تعمیری سرگرمیاں نمایاں رہیں۔ ڈینٹل کالج اور نہ جانے کتنے تحقیقی ادارے ان کی کوششوں کا نتیجہ تھے۔انہوں نے کہا کہ ان کا پروفیسر مشیر الحسن سے تعلق نصف صدی سے زیادہ عرصے پر محیط ہے۔ وہ پہلے علی گڑھ میں اور بعد ازاں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ان کے ساتھ رہے۔ پروفیسراخترالواسع نے کہا کہ مشیر صاحب کا انتقال علمی دنیا، علی گڑھ اور جامعہ برادری کے لیے ایک بڑا نقصان ہے۔

مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل سیتا رام یچوری نے پروفیسر مشیر الحسن کے انتقال پر دکھ ظاہر کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا کہ ’’ایک مؤرخ، ایک استاد، ایک وائس چانسلر، ایک آرکیالوجسٹ مشیرالحسن میں تہذیب اور دانشوری کا بے مثال سنگم تھا۔ ان کے کارنامے اور ان کی کتابیں ہماری رہنمائی کرتی رہیں گی۔ پروفیسر زویا حسن اور ان کے خاندان کو میری تعزیت‘۔

انجمن ترقی اردو (ہند) نے ایک بیان میں کہا کہ ادارہ محسوس کرتا ہے کہ پروفیسر مشیر الحسن کی وفات سے ہم ایک ایسے نامور اسکالر، مورّخ اور دانش ور سے محروم ہوگئے ہیں جس کی تلافی ناممکن ہے۔ خدا مرحوم کو اپنی جوارِ رحمت میں جگہ دے اور پس ماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔