ہندو طلباء نے اے ایم یو کیمپس میں نکالی ترنگا یاترا، لگائے گئے اشتعال انگیز نعرے

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی انتظامیہ نے اشتعال انگیزی کے لیے اجے سنگھ و دیگر اے ایم یو طلبا کو نوٹس جاری کیا ہے اور ان سے پوچھا ہے کہ بغیر اجازت کیمپس میں جلوس کیوں نکالا گیا۔

تصویر ابو ہریرہ
تصویر ابو ہریرہ
user

ابو ہریرہ

علی گڑھ: اے ایم یو کیمپس میں اس وقت سنسنی پھیل گئی جب قانون کے طالب علم اور بی جے پی رکن اسمبلی و سابق وزیر مملکت کے پوتے اجے سنگھ نے یونیورسٹی میں مولانا آزاد لائبریری کے سامنے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ترنگا یاترا نکالی۔ اجے سنگھ موٹر سائیکل پر سوار ہوکر اور ہاتھوں میں ترنگا جھنڈا تھامے تیز تیز آواز میں وندے ماترم اور بھارت ماتا کی جے کے نعرے بھی لگا رہے تھے جس سے اچانک یونیورسٹی کا ماحول کشیدہ ہو گیا۔ کیمپس میں ایک سنسنی کا عالم پیدا ہو گیا اور طلبا بڑی تعداد میں لائبریری اور اس کے آس پاس جمع ہونے لگے۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ یونیورسٹی انتظامیہ کے افسران کو جیسے ہی اس ترنگا یاترا کی اطلاع ملی، انھوں نے اجے سنگھ اور اس کے ساتھیوں کو کیمپس سے فوری نکلنے کے لئے احکامات جاری کر دیے۔ ساتھ ہی انھوں نے یاترا نکالنے والے طلبا کو شو کاز نوٹس جاری کیا اور پوچھا کہ انھوں نے بغیر اجازت یہ ریلی کیسے نکالی؟

ذرائع کے مطابق ایک نوٹس کے ذریعہ انتظامیہ کی جانب سے پراکٹر دفتر سے جواب طلب کیا گیا ہے کہ آخر اجے سنگھ اور ان کے چند دوستوں نےکس وجہ سے ترنگا یاترا کے نام پر اشتعال انگیز نعرے بازی کی اور وہ بھی ایسے وقت میں جبکہ تمام تر شعبوں میں درس و تدریس کا عمل جاری تھا۔ سوال یہ بی پوچھا گیا ہے کہ اس طرح سے ایک تعلیمی ادارے میں نعرے بازی کے ذریعہ سنسنی پھیلانے کی کیا وجہ تھی جبکہ اصول کے مطابق کیمپس میں اتحاد اور اتفاق کے قیام کی کوششوں کے تحت کسی بھی غیر تدریسی عمل کے لئے اجازت لینا ضروری ہے۔

یونیورسٹی انتظامیہ نے نوٹس میں کہا کہ اجے سنگھ نے مسلم یونیورسٹی کیمپس میں غیر ضروری اور اشتعال انگیز نعرے بازی کر کے ماحول کو خراب کرنے کے ساتھ ساتھ ودرس و تدریس کے کام میں بے وجہ رخنہ اندازی کا کام کیا ہے جو غیر قانونی ہے۔ اجے سنگھ کے خلاف نوٹس جاری کیے جانے کے بعد بی جے پی لیڈران و اراکین پارلیمنٹ نے اس کو سیاسی ایشو بنا لیا ہے۔ انھوں نے اے ایم یو انتظامیہ کے نوٹس پر سخت اعتراض کرتے ہوئے ترنگا یاترا کو درست قرار دینے کی کوشش بھی کی ہے۔

اس پورے معاملے پر طلباء یونین کے سابق نائب صدر ندیم انصاری و سابق امیدوار راو فراز نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے اجے سنگھ کی اس حرکت کو نہایت بزدلانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اے ایم یو ایک تعلیمی ادارہ ہے اور اجے سنگھ اپنی سیاسی زمین چمکانے کے لئے مسلسل بی جے پی اور آر ایس ایس کے ایجنڈے کے تحت اے ایم یو کیمپس میں ہندو اور مسلم طلباء کے درمیان نفرت پھیلانے کا کام کر رہے ہیں جو نہایت گھٹیا سوچ کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں اپنی تعلیمی سرگرمیوں کے لئے معروف مسلم یونیورسٹی کو اجے سنگھ اپنی گھٹیا سوچ سے اس کے وقار اور ساکھ کو داغ لگانے کا کام کر رہے ہیں۔ انھیں اس سب سے باز رہ کر صرف تعلیمی سرگرمیوں سے سروکار رکھنا چاہئے۔ ندیم انصاری نے اس معاملے میں یہ بھی کہا کہ اجے سنگھ کے دادا کی شبیہ ایک اچھے اور سیکولر سیاست داں کی رہی ہے اور انہیں ایم ایل اے بنانے میں علاقہ کے مسلم ووٹروں کا بہت بڑا ہاتھ رہا۔ ان کی پرورش میں بھی مسلمانوں کا بہت بڑا رول ہے لیکن افسوس کہ جس ادارے میں انہیں تعلیمی شعور اور بنیادی کامیابی حاصل ہوئی وہ اپنی ذاتی سیاست کے لئے اسی ادارے کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ لیکن انہیں سمجھنا چاہئے کہ وہ جس طرح کی سیاست سے اپنا مستقبل بنانا چاہتے ہیں انہیں اس میں کسی طرح کامیابی حاصل ہونے والی نہیں ہے۔

اجے سنگھ اور ان کے حامیان بی جے پی لیڈران کی سوچ اور ادارے میں بد امنی پھیلانے کی ناکام کوشش پر سابق طلباء نے رکن پارلیمنٹ ستیش گوتم کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بی جے پی لیڈران پہلے عوام کو جواب دیں اور بتائیں کہ گزشتہ برسوں میں کون کون سے ترقیاتی کام ہوئے، کتنے طلباءکو روزگار ملا،کتنے آئی آئی ایم،آئی آئی ٹی کا قیام وجود میں آیا۔ وہ مسلم یونیورسٹی کے خلاف اپنی بیان بازی بند کریں اور کانگریس کے خلاف زہر اگلنا بند کریں کیونکہ جلد ہی 2019کے لوک سبھا انتخابات میں انہیں اپنی حیثیت کا اندازہ ہو جائےگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔