لو جہاد کا معاملہ بتا کر ’ہندو دھرم سینا‘ نے کیا ہنگامہ، لڑکی نے کہا ’شادی ضرور کروں گی‘

ہندو دھرم سینا کے ذریعہ ہنگامہ برپا کیے جانے کے بعد لڑکی نے واضح لفظوں میں کہا کہ وہ شادی اپنی مرضی سے کر رہی ہے، اور اس وقت بھلے ہی اسے شادی سے روک دیا گیا ہو، لیکن بعد میں وہ شادی ضرور کرے گی۔

علامتیم تصویر آئی اے این ایس
علامتیم تصویر آئی اے این ایس
user

تنویر

ایک طرف جہاں بی جے پی حکمراں ریاستوں میں لو جہاد قانون نافذ کیے جانے کا سلسلہ چل پڑا ہے، وہیں دوسری طرف محبت کرنے والے الگ الگ مذاہب کے لڑکے و لڑکیاں شادی میں آ رہی بلاوجہ کی دقتوں سے پریشان بھی ہیں۔ ایسا ہی ایک معاملہ گزشتہ دنوں مدھیہ پردیش میں سامنے آیا جہاں ہندو دھرم سینا کے لوگوں نے کلکٹریٹ میں کافی ہنگامہ کیا۔

ہندی نیوز پورٹل ’وَن انڈیا ڈاٹ کام‘ پر شائع ایک رپورٹ کے مطابق جبل پور کے رہنے والا ایک لڑکا اور لڑکی نے پیر کے روز کلکٹریٹ پہنچ کر شادی کا رجسٹریشن کرانا چاہا، لیکن وہاں ہندو دھرم سینا کے کارکنان بھی پہنچ گئے اور ’لو جہاد‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے ہنگامہ شروع کر دیا۔ ہندو دھرم سینا کو کسی طرح یہ خبر لگ گئی تھی کہ اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والا لڑکا ایک ہندو لڑکی سے شادی کرنے جا رہا ہے، اور یہ خبر لگتے ہی سینا کارکنان کلکٹریٹ پہنچ گئے اور شادی کے رجسٹریشن پر اعتراض کرنے لگے۔


موصولہ اطلاعات کے مطابق لڑکی نے بارہا کہا کہ یہ لو جہاد کا معاملہ نہیں ہے، لیکن ہندو دھرم سینا کارکنان نے اس کی شادی نہیں ہونے دی۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ لڑکی کو لو جہاد کے ذریعہ بہلا پھسلا کر مذہب تبدیل کرنے کے لیے تیار کیا گیا اور اب شادی کی جا رہی ہے۔ حالانکہ اس درمیان لڑکی نے واضح لفظوں میں کہہ دیا کہ وہ شادی اپنی مرضی سے کر رہی ہے، اور اس وقت بھلے ہی اسے شادی سے روک دیا گیا ہو، لیکن بعد میں وہ شادی ضرور کرے گی۔

ہندو دھرم سینا کے ذریعہ ہنگامہ کیے جانے کے بعد پولس نے شادی کے عمل کو روک دیا اور دونوں کے گھر والوں کو تھانہ بلا کر سمجھایا اور پھر لڑکا-لڑکی کو اہل خانہ کے حوالے کر دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ لڑکے کی عمر 20 سال اور لڑکی کی عمر 18 سال ہے۔ گویا کہ دونوں ہی بالغ ہیں اور شادی سے متعلق فیصلہ لینے کے لیے بھی قانونی طور پر اہل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لڑکی بار بار شادی کے لیے زور ڈال رہی تھی، لیکن کسی طرح پولس نے اسے سمجھا کر گھر والوں کے ساتھ بھیج دیا۔


واضح رہے کہ مدھیہ پردیش کی بی جے پی حکومت نے منگل کے روز ہی ’مدھیہ پردیش مذہبی آزادی آرڈیننس-2020‘ کو منظوری دی ہے۔ وزیر اعلیٰ شیوراج چوہان نے بعد میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ مذہب تبدیلی کے خلاف قانون کو سخت بنایا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہم ایم پی میں اب مذہب تبدیلی کے عمل کو برداشت نہیں کریں گے۔ اس قانون میں غیر قانونی طریقے سے مذہب تبدیلی کو ناقابل قبول مانا جائے گا اور شادی کو بھی نہیں مانا جائے گا۔ اگر ایسی شادی کے بعد اولاد ہوتی ہے تو والد کی ملکیت پر اسے حق ملے گا۔‘‘ علاوہ ازیں شیوراج چوہان نے یہ بھی بتایا کہ غیر قانونی طریقے سے مذہب بدلوانے پر 10 سال تک کی سزا اور ایک لاکھ روپے کا جرمانہ ہوگا۔ دھمکی، شادی یا کسی دیگر طرح کی بات کہہ کر مذہب بدلوانے والے کو 5 سال تک کی سزا اور 25 ہزار روپے تک کا جرمانہ ہو سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 30 Dec 2020, 7:10 PM