حجاب معاملہ: سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران اہم دلائل پیش، آئندہ سماعت 7 ستمبر کو

سینئر وکیل سنجے ہیگڑے نے سپریم کورٹ کے سامنے سوال اٹھایا کہ کیا خواتین کو حصولِ تعلیم کے لیے مخصوص لباس نہ پہننے پر مجبور کیا جا سکتا ہے؟

سپریم کورٹ/ تصویر آئی اے این ایس
سپریم کورٹ/ تصویر آئی اے این ایس
user

ایشلن میتھیو

آج سپریم کورٹ میں حجاب معاملہ کو لے کر اہم سماعت ہوئی جس میں عرضی دہندگان کے وکلاء کی طرف سے کچھ اہم باتیں سامنے رکھی گئیں۔ کرناٹک میں تعلیمی اداروں میں حجاب یا سر پر اسکارف پہننے پر لگائی گئی پابندی سے متعلق تقریباً دو درجن درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس ہیمنت گپتا اور سدھانشو دھولیا کی بنچ نے عرضی دہندگان کے وکلاء سے کچھ وضاحتیں طلب کیں، اور پھر آئندہ سماعت کے لیے 7 ستمبر 2022 کی تاریخ مقرر کر دی گئی۔

آج ہوئی سماعت کے دوران دلائل کا آغاز کرتے ہوئے سینئر وکیل سنجے ہیگڑے نے سپریم کورٹ کے سامنے سوال اٹھایا کہ کیا کسی کو مخصوص لباس پہننے کی وجہ سے کلاس روم میں جانے سے روکا جا سکتا ہے؟ اور کیا خواتین کو حصولِ تعلیم کے لیے مخصوص لباس نہ پہننے پر مجبور کیا جا سکتا ہے؟ ہیگڑے نے اڈوپی کا ایک واقعہ بتایا جہاں سیاسی سرگرمی کی وجہ سے عجیب حالات پیدا ہو گئے۔ انھوں نے بنچ سے کہا کہ ’’جو لڑکیاں حجاب پہن کر اسکول جاتی تھیں، انھیں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا مذاق اڑایا گیا اور انھیں کلاس روم کے باہر بھی کھڑے رہنے کو کہا گیا۔ جب والدین نے بتایا کہ اسکول سے حجاب پہننے کے لیے رضامندی لی گئی ہے، تو اسکول کے پرنسپل نے واضح لفظوں میں کہہ دیا کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘


وکیل سنجے ہیگڑے چاہتے تھے کہ بنچ اس بات کی جانچ کرے کہ کیا کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ کی دفعہ 133(2) کے مطابق طلبا کے لیے کالجوں کی گورننگ باڈی کے ذریعہ طے کردہ یونیفارم پہننا لازمی ہے۔ یہ ایکٹ حکومت کو ظاہری طور پر یہ کہنے کا اختیار دیتا ہے کہ یکساں کپڑے کو لازمی طور پر پہنا جانا ہے، لیکن پرائیویٹ اسکول انتظامیہ اپنا لباس یعنی وردی منتخب کر سکتا ہے۔ ہیگڑے نے سوال کیا کہ ’’کیا تعلیم تک رسائی مشروط ہے، خصوصاً تب جبکہ خواتین معاشرے کا زیادہ کمزور طبقہ ہوں۔ جواباً جسٹس ہیمنت گپتا نے کہا کہ وہ سمجھ رہے ہیں کہ اگر حجاب کی اجازت نہیں دی گئی تو حصولِ تعلیم سے انکار کر دیا جائے گا۔

کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ہیگڑے نے نشاندہی کی کہ ایکٹ کا سیکشن 39 مذہب یا ذات وغیرہ کی بنیاد پر داخلہ سے انکار کرنے اور مذہبی جذبات کو مجروح کرنے پر روک لگاتا ہے۔ ہیگڑے نے بتایا کہ حکومتی حکم، جس میں کہا گیا ہے کہ کوئی ایسا یونیفارم نہیں پہن سکتا جو آپ کے مذہب کو ظاہر کرتا ہے، مسلم خواتین کے لیے بہت نقصان پہنچاتا ہے۔ اس معاملے میں جسٹس گپتا نے اخذ کیا کہ اگرچہ ہیڈ اسکارف پہننا ایک مذہبی عمل ہو سکتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا حجاب ایسے اسکول میں پہنا جا سکتا ہے جہاں یونیفارم کا تعین کیا گیا ہے۔ اس بات پر ہیگڑے نے کہا کہ ’’سوال یہ ہے کہ کیا حصولِ تعلیم سے انکار کر دیا جائے؟‘‘ سماعت کے دوران ہیگڑے حجاب کو دوپٹہ کے مساوی ظاہر کرنا چاہ رہے تھے، لیکن جسٹس گپتا نے اصرار کیا کہ دوپٹہ مختلف ہے کیونکہ اسے کندھے پر پہنا جاتا ہے۔


درخواست گزاروں میں سے ایک کی طرف سے پیش سینئر وکیل راجیو دھون نے کہا کہ اگرچہ عدالتوں نے بھی ڈریس کوڈ کا تعین کیا ہے، لیکن کورٹ-2 میں ایک جج کی پگڑی پہنے ہوئے تصویر موجود ہے۔ اس پر جسٹس گپتا نے کہا کہ پگڑی مذہبی نہیں ہے اور میرے دادا لاء کی پڑھائی کے دوران اسے پہنتے تھے۔ پھر دھون کہتے ہیں کہ ’’یہ تجویز کیا گیا تھا کہ اسکارف کا رنگ یونیفارم کے یکساں رکھا جا سکتا ہے۔ اس عدالت میں بھی کچھ خواتین ایسا اسکارف پہنتی ہیں، لیکن کیا اسکولوں میں اسے ہٹانے کے لیے کہا جا سکتا ہے؟‘‘ ساتھ ہی دھون نے کہا کہ ’’حجاب پورے ملک اور دنیا کی خواتین کو متاثر کرتا ہے۔‘‘ دھون نے یہ نشاندہی بھی کی کہ ہائی کورٹ کے دو متضاد احکامات حجاب معاملے میں سامنے آئے ہیں۔ کیرالہ ہائی کورٹ کے حکم میں کہا گیا ہے کہ حجاب کی اجازت ہے، اور کرناٹک ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ حجاب کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ راجیو دھون نے زور دے کر کہا کہ ’’اس سلسلے میں ہندوستانی سپریم کورٹ جو فیصلہ کرے گی، وہ انتہائی اہم ہوگا۔‘‘

واضح رہے کہ کرناٹک ہائی کورٹ نے 15 مارچ 2022 کو حجاب پر پابندی کو برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا تھا۔ اس فیصلہ کے بعد بعض پری یونیورسٹی کالجوں میں خواتین مسلم طالبات کو سر پر اسکارف پہننے سے یہ کہتے ہوئے منع کیا گیا تھا کہ مسلم خواتین کا سر پر اسکارف پہننا ایک لازمی مذہبی عمل نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔