کرناٹک میں حجاب پر تنازعہ: اسکول 3 دن کے لیے بند، ہائی کورٹ آج کرے گا معاملہ کی سماعت

حجاب کے تنازع پر کرناٹک میں لگاتار ہنگامہ آرائی ہو رہی ہے، حجاب مخالفت احجاج کے دوران کالج کیمپس میں پتھراؤ کیا گیا، جس کے بعد پولیس نے طاقت کا استعمال کیا، کئی مقامات پر تصادم جیسی صورتحال نظر آئی

حجاب کے حق میں احتجاج کرتی خواتین / یو این آئی
حجاب کے حق میں احتجاج کرتی خواتین / یو این آئی
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: کرناٹک میں حجاب کے حوالہ سے ہو رہی ہنگامہ آرائی لگاتار جاری ہے۔ ریاست بھر کے اسکول کالجوں میں حجاب کے حق اور مخالفت میں احتجاج شدید ہو گئے ہیں۔ کالج کیمپس میں پتھراؤ کے واقعات نے پولیس کو طاقت کا استعمال کرنے پر مجبور کر دیا، جس سے تصادم جیسی صورتحال پیدا ہو گئی۔ ملک کے مختلف حصوں میں مسلم طالبات کو تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے کی اجازت دینے کے لیے مظاہرے ہو رہے ہیں۔

کرناٹک ہائی کورٹ بدھ کو ایک بار پھر اس معاملے کی سماعت کرنے جا رہا ہے۔ قبل ازیں منگل کو اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے ہائی کورٹ نے لوگوں سے امن برقرار رکھنے کی اپیل کی تھی۔ کرناٹک ہائی کورٹ لڑکیوں کی طرف سے حجاب پہننے کے حق کے لیے دائر درخواست پر غور کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بڑھتے ہوئے تنازعہ کو دیکھتے ہوئے کرناٹک حکومت نے ریاست بھر کے تعلیمی اداروں میں تین دن کی چھٹی کا اعلان کیا ہے۔


حجاب کے تنازع کے درمیان سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے۔ ویڈیو میں حجاب کے خلاف بھگوا شال لے کر احجاج کر رہا لڑکوں کا ایک گروپ منڈیا میں حجاب پہننے والی لڑکی کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہوئے نظر آ رہا ہے۔ مسکان نامی اس لڑکی نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سینکڑوں لڑکوں کے ’جے شری رام‘ کے نعرے کا جواب ’اللہ اکبر‘ سے دیا۔ مسکان کی ہر طرف تعریف ہو رہی ہے اور جمعیۃ علما ہند نے اس بہادر لڑکی کو 5 لاکھ روپے کا انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔ بعد میں ایک انٹرویو کے دوران مسکان نے کہا کہ ان کے ساتھ بدسلوکی کرنے والے بیشتر لڑکے باہری تھے اور وہ انہیں نہیں جانتی۔

نوبل امن انعام یافتہ اور حقوق نسواں کی کارکن ملالہ یوسفزئی نے بھی اس معاملے پر اپنی رائے دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لڑکیوں کو ان کے حجاب کی وجہ سے اسکول میں داخلے سے روکنا افسوسناک ہے۔ ملالہ یوسفزئی نے ٹویٹ کیا، ’’کالج ہمیں پڑھائی اور حجاب میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ لڑکیوں کو ان کے حجاب میں اسکول جانے سے انکار کرنا خوفناک ہے۔ خواتین کا اعتراض جاری ہے۔ ہندوستانی رہنما مسلم خواتین کو حاشیہ پر لے جانے کا سلسلہ بند کرنا چاہئے۔‘‘


قابل ذکر ہے کہ کرناٹک میں حجاب کو لے کر تنازعہ یکم جنوری کو اس وقت شروع ہوا جب کرناٹک کے اڈوپی میں 6 مسلم طالبات کو حجاب پہننے پر کالج کے کلاس روم میں بیٹھنے سے روک دیا گیا۔ کالج انتظامیہ نے اس کی وجہ نئی یونیفارم پالیسی کو بتایا تھا۔ اس کے بعد ان لڑکیوں نے کرناٹک ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی۔ لڑکیوں کا موقف ہے کہ انہیں حجاب پہننے کی اجازت نہ دینا آئین کے آرٹیکل 14 اور 25 کے تحت ان کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے۔

وہیں، کرناٹک میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر وزیر اعلی بسواراج بومئی نے کہا، ’’میں تمام طلباء، اساتذہ، کالجوں اور کرناٹک کے لوگوں سے امن اور ہم آہنگی برقرار رکھنے کی اپیل کرتا ہوں۔ میں متعلقہ لوگوں سے کہہ رہا ہوں کہ وہ اشتعال انگیز بیانات دینے سے گریز کریں اور حالات خراب نہ ہونے دیں، کیونکہ جہاں تک طلباء کا تعلق ہے یہ ایک بہت ہی حساس مسئلہ ہے۔‘‘


اس معاملے میں کرناٹک کے سابق وزیر اعلیٰ سدھارمیا نے کہا کہ اب تک ریاست میں حجاب اور بھگوا پر کوئی تنازع نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی حکومت جان بوجھ کر اس مسئلہ کو ہوا دے رہی ہے اور سیاست کر رہی ہے۔ وہیں کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے بھی اس تنازعہ کو بی جے پی کا ایجنڈا قرار دیا تھا۔ انہوں نے اسے شخصی آزادی کے لیے خطرہ بھی قرار دیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 09 Feb 2022, 8:41 AM
/* */