دہلی حکومت کے مالی مدد سے انکار پر ہائی کورٹ برہم، خراب نظامِ صحت پر سرزنش
دہلی ہائی کورٹ نے دہلی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ حکومت تقریباً دیوالیہ ہو چکی ہے، صحت کے شعبے کی حالت پر بھی شدید برہمی کا اظہار کیا

دہلی ہائی کورٹ نے مرکزی حکومت کی طرف سے صحت منصوبہ کے توسط سے مالی مدد منظور نہیں کیے جانے کے دہلی حکومت کے رویہ پر سخت حیرانی کا اظہار کیا ہے۔ بدھ کو چیف جسٹس منموہن اور جسٹس تشار راؤ گیڈیلا کی بنچ نے کہا کہ یہ عجیب ہے کہ دہلی حکومت مرکز کی مدد قبول نہیں کر رہی ہے جبکہ اس کے پاس اپنے ہیلتھ کیئر سسٹم کے لیے کوئی پیسہ نہیں ہے۔
عدالت نے ریاستی حکومت سے کہا کہ آپ کی رائے میں فرق ہو سکتا ہے لیکن اس معاملے میں آپ مدد لینے سے کیوں انکار کر رہے ہیں؟ آپ کی کوئی بھی مشین کام نہیں کر رہی ہے۔ اسپتالوں میں مشینوں کو کام کرنا ہوگا لیکن حقیقت میں آپ کے پاس انہیں چلانے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ چیف جسٹس منموہن نے کہا کہ آپ شہریوں کے لیے 5 لاکھ روپے لینے سے انکار کر رہے ہیں، میں حیران ہوں۔
چیف جسٹس منموہن نے آگے دہلی حکومت پر سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا "میں عدالت میں کھلے طور پر کہہ رہا ہوں کہ آپ ورچوئلی دیوالیہ ہیں۔۔۔آپ کے وزیر صحت اور ہیلتھ سکریٹری ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے ہیں۔ اس طرح کی گڑبڑی میں آپ مرکز کی مدد قبول نہیں کر رہے ہیں۔"
عدالت نے کہا کہ مرکزی منصوبہ شہریوں کے خاص طبقہ کو دی جا رہی صرف ایک مدد ہے۔ دہلی انتظامیہ کے اندر اختلافات کو دور کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ عدالت نے ریاستی حکومت کے پاس پیسے کی کمی کی وجہ سے کئی اسپتالوں کے پورا نہیں ہونے پر بھی ناراضگی ظاہر کی۔ عدالت نے کہا کہ اُسے مسلسل اراکین اسمبلی کے ذریعہ ان کی شکایتوں پر مبینہ طور پر حل نہیں کیے جانے کے تعلق سے عرضیاں مل رہی ہیں جو ٹھیک نہیں ہے۔
واضح ہو کہ دہلی میں بی جے پی کے 7 اراکین پارلیمنٹ نے عام آدمی پارٹی کی قیادت والی دہلی حکومت کو آیوشمان بھارت پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا (اے بی-پی ایم جے وائی) نافذ کرنے کی ہدایت دینے کے لیے ہائی کورٹ کا رخ کیا ہے۔ اراکین پارلیمنٹ نے اپنی مفاد عامہ کی عرضی میں کہا ہے کہ دہلی واحد مرکز کے زیر انتظام علاقہ ہے جہاں محرومین کے لیے فائدہ مند ہیلتھ کیئر اسکیم کو ابھی تک نافذ نہیں کیا گیا ہے۔ اس لیے وہ 5 لاکھ روپے کے ضروری کوریج سے مستفید نہیں ہو پا رہے ہیں۔
مفاد عامہ کی عرضی پر اگلی سماعت 28 نومبر کو ہوگی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔