وزیر اعلیٰ شیوراج، گورنر اور 14 وزرا کو ہائی کورٹ کا نوٹس، آئین کی خلاف ورزی کا الزام

عرضی میں یہ کہا گیا ہے کہ رکن اسمبلی کے علاوہ کسی اور شخص کو وزیر بنانے کا فیصلہ ناگزیر حالات میں کیا جاتا ہے، لیکن مدھیہ پردیش میں شیوراج حکومت نے آئینی اصولوں کا غلط استعمال کیا

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

بھوپال: مدھیہ پردیش میں کانگریس پارٹی سے بغاوت کر کے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا دامن تھامنے والے 14 سابق ارکان اسمبلی کو آئینی اصول و ضوابط بالائے طاق رکھتے ہوئے عہدہ وزارت پر فائز کر دیا گیا۔ شیوراج حکومت کے اس فیصلے پر جبل پور ہائی کورٹ میں عرضی دائر کی گئی ہے۔ جس کی سماعت کرتے ہوئے ہائی کورٹ نے نہ صرف 14 وزرا بلکہ وزیر اعلی شیوراج سنگھ چوہان، گورنر اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کر دیئے ہیں۔

چھندواڑہ سے تعلق رکھنے والی وکیل آرادھنا بھارگو کی طرف سے دائر کی گئی عرضی میں کہا گیا ہے کہ مدھیہ پردیش میں شیوراج حکومت نے آئینی ضوابط کا غلط استعمال کیا ہے۔ کانگریس کے 22 ایم ایل اے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے کر بی جے پی میں شامل ہوگئے، لیکن جب شیوراج حکومت نے اپنی کابینہ میں توسیع کی تو ان میں سے 14 سابق وزیروں کو عہدہ وزارت سے نواز دیا گیا، جوکہ مکمل طور پر غیر آئینی ہے۔


عرضی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ رکن اسمبلی کے علاوہ کسی اور شخص کو وزیر بنانے کا فیصلہ ناگزیر حالات میں کیا جاتا ہے، لیکن مدھیہ پردیش میں شیوراج حکومت نے آئینی اصولوں کا غلط استعمال کیا اور عہدوں سے استعفیٰ دے کر آئے غیر جماعت کے ارکان اسمبلی کو وزیر کے عہدوں پر بیٹھا دیا۔

عرضی میں اٹھائے گئے دلائل سننے کے بعد جبل پور ہائی کورٹ نے 14 وزراء، وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان ، گورنر، الیکشن کمیشن اور اسمبلی کے اسپیکر کو نوٹس جاری کر کے 14 دسمبر تک جواب طلب کیا ہے۔


غور طلب ہے کہ مدھیہ پردیش کی 28 اسمبلی نشستوں پر ضمنی انتخاب کا عمل جاری ہے۔ الیکشن کا نتیجہ 10 نومبر تک کو جاری کر دیا جائے گا۔ ایسی صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عرضی کا جواز کیا ہے! اس پر عرضٰ گزار آرادھنا بھارگو کہتی ہیں کہ اگرچہ مدھیہ پردیش میں صورتحال معمول پر آ جائے لیکن ہائی کورٹ کا فیصلہ اگر حکومت کے خلاف آتا ہے تو آنے والے وقت میں ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ نظیر ثابت ہوگا اور پھر کوئی بھی سیاسی جماعت اس طرح سے ان لوگوں کو بڑی تعداد میں وزیر نہیں بنائے گی جو ارکان اسمبلی نہیں ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔