ہے رام! باپو کے ہندوستان کی پارلیمنٹ میں پرگیہ ٹھاکر بیٹھیں گی

پرگیہ نے گاندھی جی کے قاتل کی ہی تعریف نہیں کی بلکہ ملک کے ایسےپولس افسر کے خلاف بھی بدزبانی کی جو ملک کے لئے دہشت گردوں سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے تھے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز تجزیہ

سی ایف اینڈریوز جنوبی افریقہ سے ہی مہاتما گاندھی کے ساتھ تھے اور وہ دہلی کے سینٹ اسٹیفن کالج میں پڑھانے کے لئے آئے تھے۔ مگر یہاں آکر وہ مہاتما گاندھی کے بہت قریب ہو گئے اور پھر زندگی کا ایک بڑا وقت گاندھی کے ساتھ ان کے نظریہ کو فروغ دینے میں صرف کیا۔

ونوبا بھاوے کی گاندھی جی سے 1916 میں ملاقات ہوئی تھی اور وہ گاندھی جی کے ایسے مرید ہو گئے تھے کہ انہوں نے گاندھی جی کے ساتھ آزادی کی ہر تحریک میں حصہ لیا اور کئی مرتبہ جیل بھی گئے۔ایک طرح سے انہوں نے اپنی زندگی گاندھی جی اور ان کے نظریہ کے لئے وقف کر دی تھی۔

ہے رام! باپو کے ہندوستان کی پارلیمنٹ میں پرگیہ ٹھاکر بیٹھیں گی

پٹیالہ کے ایک اعلی مسلم خاندان سے تعلق رکھنے والی بی بی اَمتل سلام گاندھی جی اور ان کے نظریات سے بہت زیادہ متاثر تھیں۔ انہوں نے ستیہ گرہ اور انگریزو ہندوستان چھوڑو تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ انہوں نے بھی اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ گاندھی جی کے نظریات کی تبلیغ کے لئے وقف کر دیا تھا۔

کپورتھلا کے شاہی خاندان کی راج کماری امرت کور گاندھی جی کے نظریات سے اتنی زیادہ متاثر ہوئیں کہ انہوں نے آزادی کی تحریک میں اپنا زبردست کردار ادا کیا اور بعد میں انہوں نے تعلیم نسواں اور دلتوں کے بہبود کے لئے بہت کام کیا۔


یہ ان کروڑوں ہندوستانیوں میں سے چند نام ہیں جنہوں نے گاندھی جی کی آواز سے آواز ملا کر ان کی ہر بات پر لبیک کہا اور اپنی زندگی کے تمام عیش و آرام کو ٹھکرا کر گاندھی جی کے ساتھ کام کیا ۔خاص بات یہ تھی کہ اس میں کسی مذہب کا کوئی دخل نہیں تھا، بس بات تھی تو ہندوستان اور اس کی آزادی کی۔ ان میں سے جس طبقہ نے مذہب کی بات کی اس نے ایک علیحدہ ملک بنا لیا۔ اسی کی بدولت گاندھی جی کی قیادت میں مظلوم ہندوستانیوں نے بغیر ہتھیار اٹھائے ایک ایسا تاریخی کام انجام دیا جس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی۔ عدم تشدد پر عمل کرتے ہوئے گاندھی جی کی قیادت میں ہندوستان نے انگریزوں کو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کیا اور آزادی حاصل کی۔

افسوس یہ ہے کہ آزادی کے فوراً بعد ایک سر پھرے دہشت گرد نے اپنے تشدد کا اس شخص کونشانہ بنایا جس نےپوری زندگی عدم تشدد کے نظریہ کی تبلیغ کی تھی۔ گاندھی جی کے قتل کے بعد ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے اپنے خطاب میں کہا تھا ’’ روشنی چلی گئی ‘‘(دی لائٹ ہیز گون آؤٹ) اور یہ حقیقت تھی کہ گاندھی کے بعد ملک سے گاندھی سے سیدھے طور پر ملنے والی روشنی ختم ہو گئی تھی لیکن ہندوستانی قائدین اور عوام نے گاندھی کے نظریہ کی روشنی میں ملک کو آگے بڑھایا اور زبردست ترقی کرتے ہوئے عالمی دنیا میں ایک شاندار مقام بنایا۔


لیکن آزادی کے 72 سال بعد ہونے والے عام انتخابات میں گاندھی جی کے نظریہ کا بھی سر عام قتل ہو گیا ہے۔ حکمراں جماعت بی جے پی کی بھوپال سے امیدوار پرگیہ ٹھاکر نے گاندھی کے قاتل کو حب الوطن قرار دیا اور بھوپال کے عوام نے اپنے ووٹ سے ان کے اس بیان پر مہر لگائی۔ بھوپال میں گاندھی کے قاتل کو حب الوطن کہنے والی پرگیہ ٹھاکر کو وہاں کے رائے دہندگان نے 866482 ووٹ دیئے اور ان کے قریبی حریف کانگریس کے دگ وجے سنگھ کو 501660 ووٹ دیئے۔ یعنی 364822 ووٹوں سے پرگیہ ٹھاکر کو جتا کر گاندھی کے نظریہ کو گاندھی کے ملک میں ہی دفن کر دیا۔

پرگیہ نے گاندھی جی کے قاتل کی ہی تعریف نہیں کی بلکہ ملک کے ایسےپولس افسر کے خلاف بھی بدزبانی کی جو ملک کے لئے دہشت گردوں سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے تھے۔ وزیرا عظم نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ پرگیہ ٹھاکر کو گاندھی جی کے قاتل کے تعلق سے دیئے گئے بیان پر ان کو دل سے کبھی معاف نہیں کریں گے۔ افسوس یہ ہے کہ پرگیہ ٹھاکر کو پارٹی سے نکالنے کی بات تو دور، دوسرے ملک میں گھس کر مارنے والے ملک کے بہادر ترین وزیر اعظم نے باپو کے قاتل کی تعریف کرنے والی کے خلاف کوئی کارروائی بھی نہیں کی۔ اور اب وہ وزیر اعظم کے ساتھ ہی اس ایوان میں بیٹھیں گی جس میں آزادی سے بیٹھنے کے لئے گاندھی جی نے اپنی پوری زندگی لگا دی تھی۔


گاندھی جی کا قتل آزادی کے چند ماہ بعد ہی ایک دہشت گرد نے کر دیا تھا اور 2019 کے عام انتخابات میں جو بچی کچی روشنی گاندھی جی کے نظریات سے اس ملک کونصیب ہو رہی تھی، اس کو بھی نئی طرح کی قوم پرستی کی ہوا نے بجھا دیا۔ اب نہ تو آزادی میں حصہ لینے والے رہے ہیں اور نہ ہی آزادی کےقصے سنانے والے رہے۔ اس لئے اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ گاندھی کے نظریہ کو زندہ کیسے رکھا جائے ؟ کیا اب مستقبل کے ہندوستان میں عدم تشدد کی کوئی جگہ نہیں رہے گی اور اگر ایسا ہوا تو کیا پھر ایک اور آزادی کی لڑائی لڑنی پڑے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔