چندریان-3 کی لانچنگ کے بعد ہر طرف جشن، لیکن لانچنگ پیڈ بنانے والے انجینئرس کو 17 ماہ سے نہیں ملی تنخواہ

بحران زدہ ہیوی انجینئرنگ کارپوریشن میں 3000 سے زائد انجینئرس کو 17 ماہ سے تنخواہ نہیں ملی ہے، حالانکہ چندریان-3 کے لیے اِسرو سے ملا کام پورا کرنے میں انھوں نے کوئی سستی نہیں کی۔

<div class="paragraphs"><p>ہیوی انجینئرنگ کارپوریشن لمیٹڈ، رانچی</p></div>

ہیوی انجینئرنگ کارپوریشن لمیٹڈ، رانچی

user

قومی آوازبیورو

چندریان-3 کی لانچنگ کے بعد ہر طرف جشن کا ماحول ہے۔ حالانکہ اس کامیابی پر فخر اور جشن میں ڈوبے ملک کے لوگ اس بات پر حیران ہو سکتے ہیں کہ چندریان-3 کے لیے لانچنگ پیڈ سمیت کئی اہم سامانوں کی مینوفیکچرنگ کرنے والی کمپنی کے انجینئرس، افسروں اور اہلکاروں کو کئی مہینوں سے تنخواہ نہیں ملی ہے۔ چندریان سمیت اِسرو کے تمام بڑے سیٹلائٹس کے لیے لانچنگ پیڈ بنانے والی اس کمپنی کا نام ہے ایچ ای سی (ہیوی انجینئرنگ کارپوریشن)۔

رانچی کے دھروا میں موجود یہ پی ایس یو وزارت برائے بھاری صنعت کے ماتحت کام کرتا ہے اور اس کی شہرت ملک میں ’مدر آف آل انڈسٹریز‘ کی شکل میں رہی ہے۔ گزشتہ دو تین سالوں سے ورکنگ کیپٹل کے سنگین بحران سے نبرد آزما رہے ایچ ای سی میں آج کی تاریخ میں تین ہزار سے زیادہ انجینئر اور اہلکار کام کر رہے ہیں۔ کمپنی پر ان کے 17 ماہ کی تنخواہ بقایہ ہے۔ تنخواہ کے مطالبہ کو لے کر انجینئر اور اہلکار لگاتار تحریک کرتے رہے ہیں، لیکن چندریان-3 کے لیے اِسرو سے ملے کام کو مکمل کرنے میں انھوں نے کوئی سستی نہیں کی۔ اسی کا نتیجہ رہا کہ چندریان-3 کے لیے ضروری موبائل لانچنگ پیڈ، ٹاور کرین، فولڈنگ کم ورٹیکلی ریپوزیشنیبل پلیٹ فارم، ہوریزانٹل سلائیڈنگ ڈور، 6 ایکسس سی این سی ڈبل کالم ورٹیکل ٹرننگ اور بورنگ مشین، 3 ایکسس سی این سی سنگل کالم ورٹیکل ٹرننگ اینڈ بورنگ مشین سمیت پیچیدہ مشینوں کی فراہمی طے وقت سے پہلے دسمبر 2022 میں ہی کر دی گئی تھی۔


جمعہ کی دوپہر جب شری ہری کوٹا واقع اِسرو کے ستیش دھون خلائی مرکز سے چندریان-3 کی کامیاب لانچنگ ہوئی تو ایچ ای سی کے انجینئروں اور اہلکاروں نے بھی فخر اور خوشی کے اس لمحہ کا جشن منایا۔ انھوں نے وَرکشاپ کے باہر اکٹھا ہو کر کیک کاٹا اور تالیاں بجائیں۔ کمپنی کے دروازے کے پاس انجینئروں نے چندریان-3 اور ایچ ای سی کا راکٹ نما ماڈل بھی بنایا تھا۔ چندریان-3 کی کامیابی کے جشن میں شامل ایک انجینئر سبھاش چندرا نے کہا کہ ایچ ای سی کے تمام اہلکاروں کا سر آج ایک بار پھر فخر سے اونچا ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہم ملک کے انتہائی اہم پروجیکٹ میں شراکت دار ہیں۔

دراصل ایچ ای سی کے پاس وَرک آرڈر کی کمی نہیں ہے، لیکن ورکنگ کیپٹل کی کمی کے سبب وقت پر کام پورا نہیں ہو پا رہا ہے اور اس وجہ سے کمپنی لگاتار خسارے میں ڈوبتی جا رہی ہے۔ ایچ ای سی نے وزارت برائے بھاری صنعت سے ایک ہزار کروڑ روپے کا ورکنگ کیپٹل دستیاب کرانے کے لیے کئی بار گزارش کی ہے، لیکن وزارت نے پہلے ہی صاف کر دیا تھا کہ مرکزی حکومت کارخانے کو کسی طرح کی مدد نہیں دے سکتی۔ یعنی کمپنی مینجمنٹ کو خود اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہوگا۔


انجینئر اور افسر سمیت تقریباً 22 ہزار ملازمین کے ساتھ 1963 میں شروع ہوئی اس کمپنی میں اب صرف 3400 ملازمین اور افسران ہی بچے ہیں۔ قرض کا بوجھ اس قدر ہے کہ ان کی تنخواہ دینے میں بھی کمپنی پوری طرح اہل نہیں ہے۔ ایچ ای سی میں گزشتہ ڈھائی سالوں سے مستقل سی ایم ڈی تک کی تقرری نہیں ہوئی ہے۔ کئی مہینے سے تنخواہ نہیں ملنے کے سبب کئی ملازمین نوکری چھوڑ چکے ہیں او رکئی اپنے گھر کا خرچ چلانے کے لیے چائے-سبزی کا ٹھیلا لگانے جیسا کام کرنے پر مجبور ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔