دہلی: الیکشن کمیشن دفتر کے باہر احتجاجی مظاہرہ، بینر اور پوسٹر کے ساتھ نعرے بازی

پچاس فیصد وی وی پیٹ پرچیوں کو ملائے جانے کے اپوزیشن پارٹیوں لیڈران کے مطالبے کو الیکشن کمیشن نے مسترد کیا اور کہا کہ جس حساب سے گنتی ہونی تھی ویسے ہی ہوگی اور اس میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔

الیکشن کمیشن
الیکشن کمیشن
user

قومی آوازبیورو

ای وی ایم پر لگاتار اٹھ رہے سوالوں کے درمیان ایک طرف بدھ کے روز اپوزیشن پارٹی لیڈران اور الیکشن کمیشن کی انتہائی اہم میٹنگ ہو رہی ہے اور دوسری طرف الیکشن کمیشن دفتر کے باہر زبردست ہنگامہ برپا ہے۔ 23 مئی کو انتخابی نتائج برآمد ہونے ہیں اور اس سے پہلے ایک ایسی ہنگامہ آرائی ہو رہی ہے جو تاریخ میں پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملی۔ الیکشن کمیشن دفتر کے باہر کمیشن کے خلاف نعرے بازی ہو رہی ہے اور بینر و پوسٹر کے ساتھ مظاہرے ہو رہے ہیں۔

دراصل 22 مئی کو 22 اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈران انتخابی کمیشن سے ملاقات کرنے ان کے دفتر پہنچے تھے اور کئی مشورے دیئے تھے تاکہ ای وی ایم کی سیکورٹی بہتر بنائی جا سکے اور انتخابات میں اگر کہیں کوئی دھاندلی ہوئی ہے تو اس سے بچا جا سکے۔ آج الیکشن کمیشن نے اسی سلسلے میں ایک بار پھر اپوزیشن پارٹی لیڈران کے ساتھ میٹنگ کی اور اپوزیشن کے اس مطالبہ کو مسترد کر دیا کہ 50 فیصد وی وی پیٹ پرچیوں کو ملایا جائے۔ اس فیصلہ کے بعد اپوزیشن پارٹیوں کو جھٹکا لگا ہے لیکن الیکشن کمیشن دفتر کے باہر لوگوں کا ہنگامہ مزید تیز ہو گیا ہے۔


میڈیا ذرائع سے مل رہی خبروں کے مطابق ریوولیوشن پارٹی کے کارکنان بڑی تعداد میں الیکشن کمیشن دفتر کے باہر پوسٹر و بینر کے ساتھ جمع ہو گئے ہیں اور کمیشن کے خلاف بلند آواز میں نعرے لگا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن جانبدار کا مظاہرہ کر رہی ہے اور ای وی ایم کی سیکورٹی کے لیے ضروری انتظام نہیں کیے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے ذریعہ اپوزیشن پارٹی لیڈران کی باتوں کو درکنار کیے جانے سے بھی ریولیوشن پارٹی کارکنان ناراض ہیں اور اسے ہندوستانی جمہوریت کے لیے خطرناک بتا رہے ہیں۔


اس درمیان سابق چیف الیکشن کمشنر او پی راوت نے کہا ہے کہ ای وی ایم سے چھیڑ چھاڑ کرنا یا پھر اسے بدلنا ممکن نہیں ہے۔ ای وی ایم پر اٹھ رہے سوالوں کے درمیان او پی راوت کا کہنا ہے کہ نئی ای وی ایم میں تھوڑی بھی چھیڑ چھاڑ ہوئی تو مشین ’فیکٹی موڈ‘ میں چلی جاتی ہے اس لیے چھیڑ چھاڑ کی باتوں پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 22 May 2019, 2:10 PM
/* */