وقف قانون پر سماعت کے محمود مدنی کا واضح پیغام- ’مذہبی اداروں پر حکومتی کنٹرول ناقابل قبول‘

مولانا محمود مدنی نے سپریم کورٹ میں سماعت کے بعد کہا کہ وقف ایک مذہبی امانت ہے، حکومت کو اس پر اجارہ داری کا حق نہیں۔ عدالت سے آئینی و مذہبی حقوق کے تحفظ کی امید ہے

<div class="paragraphs"><p>مولانا محمود مدنی /  ویڈیو گریب</p></div>

مولانا محمود مدنی / ویڈیو گریب

user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے آج سپریم کورٹ میں وقف (ترمیمی) ایکٹ کے خلاف سماعت کے بعد کہا کہ وقف ایک خالص مذہبی امانت ہے جس پر کسی بھی حکومت کی اجارہ داری یا حیثیت میں تبدیلی ناقابل قبول ہے۔ جمعۃ علماء کے جاری کردہ پریس بیان کے مطابق محمود مدنی نے کہا کہ جمعیۃ عدالت عظمیٰ سے انصاف کی متمنی ہے تاکہ مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کے آئینی اور مذہبی حقوق کا تحفظ یقینی ہو سکے۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ آف انڈیا نے آج وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کے خلاف دائر مختلف عرضیوں پر سماعت کا آغاز کیا، جن میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی کی طرف سے دائر کی گئی عرضی بھی شامل ہے۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے دو گھنٹے طویل سماعت کے دوران فریقین کے دلائل بغور سنے۔

جمعیۃ علماء ہند کی نمائندگی سینئر ایڈوکیٹ راجیو دھون نے کی، جبکہ ایڈوکیٹ آن ریکارڈ منصور علی خاں پیش ہوئے۔ وکیلوں نے عدالت کے سامنے وقف ترمیمی ایکٹ میں شامل متعدد نئی شقوں پر اعتراض کرتے ہوئے انہیں آئین ہند کے بنیادی اصولوں سے متصادم قرار دیا۔ سب سے زیادہ توجہ وقف بائی یوزر کی شق کے خاتمے، واقف کے لیے پانچ سال تک باعمل مسلمان ہونے کی شرط، اور غیر مسلموں کو وقف بورڈ و کونسل کا رکن بنائے جانے پر مرکوز رہی۔

عدالت کو بتایا گیا کہ وقف بائی یوزر کی منسوخی سے چار لاکھ سے زیادہ ایسی جائیدادیں متاثر ہوں گی جو برسوں سے وقف کے طور پر استعمال ہو رہی ہیں۔ ان میں تاریخی مساجد، درگاہیں، مدارس اور دیگر مذہبی و فلاحی ادارے شامل ہیں۔ وکلاء نے مثال دی کہ اس سے دہلی کی جامع مسجد جیسی تاریخی عمارتوں کی حیثیت بھی متاثر ہو سکتی ہے۔


چیف جسٹس آف انڈیا نے دلائل سننے کے بعد ریمارکس دیے کہ اگر وقف بائی یوزر کی بنیاد پر تسلیم شدہ املاک کو ڈی نوٹیفائی کیا گیا تو اس کے نہایت سنگین نتائج برآمد ہوں گے اور اس سے سماجی و قانونی سطح پر بڑی تبدیلیاں واقع ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے جو ناقابل تغیر اثرات ڈال سکتے ہیں۔

عدالت کو اس بات پر بھی توجہ دلائی گئی کہ ترمیم شدہ قانون کے تحت کلکٹر کو زمین کی جانچ کے دوران وقف کی حیثیت معطل کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، جو مذہبی امور میں غیر ضروری سرکاری مداخلت کے مترادف ہے۔ عدالت نے اس نکتہ کو سنجیدگی سے لیا اور عندیہ دیا کہ وہ وقف املاک کے تحفظ کے لیے عبوری حکم پر غور کرے گی تاکہ قانونی کارروائی مکمل ہونے تک کسی وقف جائیداد کو نقصان نہ پہنچے۔

اس موقع پر جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے کہا کہ وقف ایک مذہبی امانت ہے اور اس پر کسی قسم کی سرکاری اجارہ داری یا اس کی حیثیت بدلنے کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ ہم سپریم کورٹ سے انصاف کی امید رکھتے ہیں تاکہ نہ صرف مسلمانوں کے بلکہ تمام اقلیتوں کے مذہبی حقوق کا تحفظ ممکن ہو۔

مولانا مدنی نے مزید کہا کہ جمعیۃ کی عاملہ نے اس قانون کا باریک بینی سے جائزہ لیا ہے اور وقف بائی یوزر کی شق کے خاتمے کو ایک بنیادی مسئلہ قرار دیا ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ آج عدالت نے بھی اس تشویش کو سنجیدگی سے لیا اور اس پر غور کرنے کا عندیہ دیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم قانونی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں اور آئینی راستے سے اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے پرعزم ہیں۔ یہ معاملہ محض مسلمانوں کا نہیں بلکہ ہندوستان کی تکثیری شناخت، مذہبی آزادی اور اقلیتی حقوق کے تحفظ سے جڑا ہوا ہے۔ واضح رہے کہ عدالت نے اعلان کیا کہ اس کیس کی کارروائی 17 اپریل 2025 کو دوپہر 2 بجے دوبارہ شروع ہوگی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔