سپریم کورٹ میں بابری مسجد مقدمہ کی سماعت مکمل، اب فیصلے کا انتظار

سماعت کے آخری دن فریقین کے درمیان تیکھی نوک جھونک، مقررہ وقت سے ایک گھنٹہ قبل ہی سماعت ختم، فیصلہ 23 دنوں کے بعد سنایا جائے گا

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: سیاسی طور پر حساس ایودھیا میں بابری مسجد رام جنم بھومی اراضی تنازعہ کیس کی سماعت سپریم کورٹ نے مکمل کر لی ہے، فیصلہ نومبر میں سنایا جائے گا۔ چیف جسٹس رجن گگوئی کی سربراہی میں پانچ ججوں کے بنچ کے سامنے 40 دنوں تک سماعت کے بعد فریقین نے کیس میں دلائل مکمل کیے۔ ایودھیا اراضی کے تنازعہ کیس میں بنچ نے متعلقہ فریقوں کو ’ریلیف مولڈنگ‘ (متبادل راحت) کے معاملے پر تحریری دلائل داخل کرنے کے لئے تین دن کا وقت دیا۔

بنچ میں جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس ڈی وائی چندر چوڈ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس عبدالنظیر بھی شامل ہیں۔ آج صبح سماعت کے آغاز پر بنچ نے کہا تھا کہ وہ گزشتہ 39 دنوں سے ایودھیا اراضی کے تنازعہ کیس کی سماعت کر رہا ہے اور اس معاملے میں سماعت مکمل کرنے کے لئے آج (بدھ) کے بعد کسی فریق کو مزید وقت نہیں دیا جائے گا۔ عدالت نے پہلے کہا تھا کہ سماعت 17 اکتوبر کو مکمل ہوگی۔ بعد میں اس مدت میں سے ایک دن کم کر دیا گیا۔


چیف جسٹس کی مدت کار 17 نومبر کو ختم ہو رہی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ بنچ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے ستمبر 2010 کے فیصلے کے خلاف دائر 14 اپیلوں پر سماعت کی تھی جس میں تین فریقین سنی وقف بورڈ، نرموہی اکھاڑہ اور رام لالہ کے مابین ایودھیا میں 2.77 ایکڑ متنازعہ اراضی کو یکساں طور پر بانٹنے کا حکم دیا گیا تھا۔

سماعت کے دوران مسلم فریق کے وکیل راجیو دھون نے ہندو مہاسبھا کے وکیل وکاس سنگھ کے ذریعہ پیش کردہ نقشہ کو پھاڑ دیا۔ اس کے بعد سی جے آئی رنجن گگوئی نے کہا کہ اگر عدالت کا احترام نہیں کیا گیا تو وہ عدالت سے چلے جائیں گے۔ بدھ کے روز سپریم کورٹ میں ایک ہندو فریق نے استدلال کیا کہ سنی وقف بورڈ اور دیگر مسلم جماعتیں یہ ثابت کرنے میں ناکام رہی ہیں کہ مغل شہنشاہ بابر نے ایودھیا کے متنازعہ مقام پر مسجد تعمیر کرائی تھی۔


چیف جسٹس رنجن گگوئی کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بنچ کے روبرو اس معاملے کی سماعت کے چالیسویں دن ہندو فریق کی جانب سے ایڈوکیٹ سی ایس ویدیاناتھن نے کہا کہ مسلم فریق نے دعوی کیا ہے کہ اس تنازعہ کا موضوع مسجد کی تعمیر حکومت کی زمین پر (بابر) کی جانب سے کیا جاتا تھا لیکن وہ ابھی تک یہ ثابت نہیں کر سکے۔ ویدیاناتھھن ایودھیا میں 2.77 ایکڑ متنازعہ اراضی کی ملکیت کے لئے سنی وقف بورڈ اور دیگر مسلم فریق کے ذریعہ سن 1961 میں دائر مقدمہ کا جواب دے رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اگر مسلم فریق منفی قبضے کے اصول کے تحت متنازعہ اراضی پر ملکیت کا دعوی کر رہے ہیں تو پھر انہیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ مورتیاں یا مندر پہلے اس کے اصل مالک تھے۔ ویدیاناتھھن نے کہا کہ وہ منفی قبضے سے فائدہ اٹھانے کا دعوی نہیں کر سکتے ہیں۔ اگر وہ ایسا دعوی کرتے ہیں تو پھر انہیں سابقہ مالک کو، جو اس معاملے میں مندر یا مورتی ہے، اس کو بے دخل کرنا ظاہر کرنا ہوگا۔ ویدیاناتھھن نے کہا کہ ایودھیا میں مسلمانوں کو نماز پڑھنے کے لئے بہت سی جگہیں ہوسکتی ہیں لیکن ہندوؤں کے لئے بھگوان رام کی جائے پیدائش صرف ایک ہی ہے جسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ مسلم فریق کی اس دلیل میں کوئی دم نہیں ہے کہ ایک طویل عرصے تک اس کے استعمال کی بنا پر، اس سرزمین کو 'وقف' کے حوالے کر دیا گیا تھا کیونکہ یہ جائداد صرف ان کے قبضہ میں نہیں تھی۔


مسلم فریقین کی جانب سے ایڈوکیٹ راجیو دھون نے سابق آئی پی ایس آفیسر کشور کنال کی ایودھیا کے بارے میں لکھی ایک کتاب پیش کرنے کی کوشش پر اعتراض کیا اور کہا کہ ایسی کوششوں کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ بنچ نے سنگھ سے اپنی دلیل جاری رکھنے کو کہا اور ریمارکس دیئے کہ دھون جی ہم نے آپ کے اعتراض کا جائزہ لیا ہے۔ دھون نے اس نقشے کا حوالہ دینے پر اعتراض کیا تھا جس میں رام کی پیدائش کی جگہ دکھائی گئی ہے۔ دھون سپریم کورٹ بنچ سے جاننا چاہا کہ انہیں نقشہ کے ساتھ کیا کرنا چاہیے! بنچ نے کہا کہ وہ اسے پھاڑ سکتے ہیں، اس کے بعد دھون نے آل انڈیا ہندو مہاسبھا کے ذریعہ عدالت میں پیش کیے گئے نقشہ کو پھاڑ دیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 16 Oct 2019, 6:44 PM