لکھیم پور کھیری تشدد: یوگی حکومت کی رپورٹ سے سپریم کورٹ ناخوش

سپریم کورٹ نے پیر کے روز لکھیم پور کھیری تشدد واقعہ میں صرف ایک ملزم کا موبائل فون ضبط کرنے اور دو ایف آئی آر میں ثبوت جمع کرنے کے عمل کے تعلق سے ایس آئی ٹی جانچ پر اپنی بے اطمینانی ظاہر کی۔

سپریم کورٹ، تصویر یو این آئی
سپریم کورٹ، تصویر یو این آئی
user

قومی آوازبیورو

سپریم کورٹ نے پیر کے روز لکھیم پور کھیری تشدد واقعہ کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے صرف ایک ملزم کا موبائل فون ضبط کرنے اور دو ایف آئی آر میں ثبوت جمع کرنے کے عمل کے تعلق سے ایس آئی ٹی جانچ پر اپنی بے اطمینانی ظاہر کی۔ عدالت نے اتر پردیش حکومت کو بتایا کہ چارج شیٹ داخل ہونے تک وہ روزانہ کی جانچ کی نگرانی کے لیے ایک سبکدوش ہائی کورٹ کے جج کو مقرر کرنے کا خواہاں ہے۔ چیف جسٹس این وی رمنا کی صدارت والی اور جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس ہما کوہلی کی بنچ نے ایک وکیل سے کہا کہ ’’ہم معاملے میں غیر جانبداری لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

شروع میں چیف جسٹس نے اتر پردیش حکومت کی نمائندگی کر رہے سینئر وکیل ہریش سالوے سے کہا کہ ’’اسٹیٹس رپورٹ میں کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم نے 10 دن کا وقت دیا ہے۔ لیب رپورٹ اب تک نہیں آئی ہے۔ یہ ہماری امید کے مطابق نہیں ہے۔‘‘ عدالت عظمیٰ نے سالوے سے پوچھا کہ اہم ملزم آشیش مشرا کو چھوڑ کر لکھیم پور کھیری واقعہ کے سبھی ملزمین کے موبائل فون ضبط کیوں نہیں کیے گئے؟ جسٹس کوہلی نے خصوصی طور پر سوال کیا کہ یہ حکومت کا رخ ہے کہ دیگر ملزم موبائل فون کا استعمال نہیں کرتے تھے؟ سالوے نے کہا کہ معاملے میں کل 16 ملزم تھے، جن میں سے تین کی موت ہو گئی اور 13 کو گرفتار کر لیا گیا۔ جسٹس کوہلی نے پوچھا کہ ’’13 ملزمین میں سے ایک ملزم کا موبائل فون ضبط کر لیا گیا ہے؟‘‘


عدالت عظمیٰ نے اتر پردیش حکومت سے کہا کہ مظاہرہ کر رہے کسانوں کو گاڑی سے کچلنے اور ملزمین کا پیٹ پیٹ کر قتل کرنے کے دونوں واقعات کی غیر جانبدارانہ جانچ ہونی چاہیے۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ پہلی نظر میں ایسا معلوم پڑتا ہے کہ ایک خصوصی طریقے سے گواہوں کے بیان درج کر کے ایک خاص ملزم کو فائدہ پہنچایا جا رہا ہے۔ جسٹس کانت نے کہا کہ ’’ہمیں جو معلوم پڑ رہا ہے وہ یہ ہے کہ ایس آئی ٹی ایف آئی آر (ایک جہاں کسانوں کو کار سے کچلا گیا اور دیگر ملزم مارے گئے) کے درمیان فرق بنائے رکھنے میں ناکام ہے... یہ اہم ہے کہ 219 اور 220 (ایف آئی آر) میں ثبوت یقینی کرنے کے لیے اسے آزادانہ طور پر درج کیا جائے۔‘‘

بنچ نے کہا کہ وہ اتر پردیش ایس آئی ٹی کے ذریعہ ثبوت درج کرنے کے لیے اختیار کیے گئے عمل کے بارے میں پراعتماد نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہم جب تک کہ چارج شیٹ داخل کی جائے گی، دنہ بہ دن کی جانچ کی نگرانی کے لیے الگ سے ہائی کورٹ کے ایک جج مقرر کرنے کے خواہاں ہیں۔‘‘ بنچ نے پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے دو سابق ججوں کے ناموں کی تجویز پیش کی تاکہ معاملوں کو ملانے سے بچنے کے لیے گواہوں کے بیان درج کیے جائیں۔ بنچ نے چارج شیٹ داخل ہونے تک جانچ کی نگرانی کے لیے ایک آزادانہ جانچ کی تقرری پر اتر پردیش حکومت سے جواب مانگا اور معاملے پر آئندہ جمعہ کو سماعت کے لیے فہرست بند کیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔