یوپی کے دیہی علاقوں میں صحت کا نظام ’رام بھروسے‘! الہ آباد ہائی کورٹ

عدالت عالیہ نے کہا، ’‘معمول کے حالات میں ہمارے عوام کی طبی ضروریات کو پورا نہیں کیا گیا، لہذا موجودہ وبا کے سامنے اس کا منہدم ہو جانا یقینی تھا‘‘

الہ آباد ہائی کورٹ، تصویر آئی اے این ایس
الہ آباد ہائی کورٹ، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

الہ آباد: ملک کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش کورونا وائرس کی دوسری لہر سے بری طرح سے متاثر ہے اور نظام صحت لوگوں کو طبی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام نظر آ رہا ہے۔ الہ آباد ہوئی کورٹ نے بھی یوپی کی اس ابتر صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے یوگی حکومت کو آئینہ دکھایا ہے۔ عدالت عالیہ نے کورونا کے مریضوں کی بہتر نگہداشت کے مطالبہ والی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ یہاں سب کچھ ’رام بھروسے‘ ہے۔ معاملہ پر دو ججوں جسٹس سدھارتھ ورما اور اجیت کمار نے

عدالت نے تین رکنی کمیٹی کی رپورٹ پر غور کیا، جس نے اپریل میں مغربی اتر پردیش کے میرٹھ شہر کے ضلع اسپتال میں ایک مریض کے مبینہ طور پر لاپتہ ہو جانے کی جانچ کی تھی۔ رپورٹ کے مطابق سنتوش کمار نامی مریض کو ضلع اسپتال میں داخل کریا گیا تھا، وہ ٹائلٹ میں گر گیا۔ اس کے بعد اسے اسٹریچر پر لایا گیا اور اس کو بچانے کی کوشش کی گئی، تاہم اس کا انتقال ہو گیا۔ عدالت نے اسے نائٹ ڈیوٹی پر تعینات ڈاکٹروں بڑی لاپروائی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔


عدالت نے یوپی کی طبی نگہداشت کی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’’جہاں تک طب سے متعلق بنیادی ڈھانچے کا سوال ہے، ان کچھ مہینوں میں ہم نے محسوس کیا ہے کہ بہت نازک، کمزور اور بے جان ہے۔ معمول کے حالات میں ہمارے عوام کی طبی ضروریات کو پورا نہیں کیا گیا، لہذا موجودہ وبا کے سامنے اس کا منہدم ہو جانا یقینی تھا۔‘‘

کورٹ نے سماعت کے دوران مغربی یوپی کے بجنور کی بھی مثال پیش کی۔ عدالت نے کہا، ’’ہمیں حیرانی ہے کہ بجنور ضلع میں لیول-3 کا کوئی اسپتال موجود نہیں ہے۔ تین سرکاری اسپتالوں میں محض 150 بیڈ ہیں، جہاں بی آئی پی اے پی مشینیں صرف پانچ ہیں اور ہائی فلو والی نیزل کینولا کی تعداد صرف 2 ہے۔


عدالت نے کہا، ’’اگر ہم دیہی علاقوں کی آبادی 32 لاکھ مانتے ہیں تو وہاں صرف 10 کمیونٹی ہیلتھ سینٹر (سی ایچ سی) موجود ہیں۔ ایسے حالات میں 3 لاکھ لوگوں پر صرف ایک ہیلتھ سینٹر ہے۔ وہیں 3 لاکھ لوگوں کے لئے صرف 30 بیڈ ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک سی ایچ سی صرف 0.01 فیصد آبادی کی صحت کی دیکھ بھال کر سکتا ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 18 May 2021, 11:46 AM
/* */