والدین کی مرضی کے خلاف شادی پر ہائی کورٹ کا فیصلہ — 'خطرہ نہ ہو تو تحفظ نہیں'
الہ آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ اگر بالغ جوڑا والدین کی مرضی کے خلاف شادی کرے تو وہ صرف اسی صورت پولیس تحفظ کے حقدار ہوگا، جب ان کی جان یا آزادی کو حقیقی خطرہ ہو

الہ آباد ہائی کورٹ نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ والدین کی مرضی کے خلاف شادی کرنے والے جوڑے صرف اسی صورت میں پولیس تحفظ کے مستحق ہوں گے جب ان کی جان یا آزادی کو حقیقی خطرہ ہو۔ عدالت کا کہنا ہے کہ محض اپنی مرضی سے شادی کرنے کی بنیاد پر پولیس سے تحفظ کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا۔
یہ فیصلہ جسٹس سوربھ سریواستو نے ایک نوجوان جوڑے کی جانب سے دائر کردہ تحفظ کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے دیا۔ درخواست گزاروں نے عدالت سے شکایت کی تھی کہ ان کے خاندان والے ان کے پرامن ازدواجی تعلق میں مداخلت کر رہے ہیں اور انہیں تحفظ فراہم کیا جائے۔
عدالت نے فریقین کے دلائل، پیش کردہ شواہد اور دستاویزات کا جائزہ لینے کے بعد پایا کہ جوڑے کو فی الوقت کوئی سنگین خطرہ لاحق نہیں ہے۔ اس بنا پر عدالت نے تحفظ کی درخواست کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ محض خاندانی مخالفت کی بنیاد پر پولیس تحفظ نہیں دیا جا سکتا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ "کسی بھی بالغ فرد کو اپنی مرضی سے شادی کرنے کا قانونی حق حاصل ہے لیکن اگر ایسی شادی والدین یا خاندان کی مرضی کے خلاف ہو، تو بھی صرف اسی وقت تحفظ دیا جا سکتا ہے جب کوئی حقیقی، واضح اور موجودہ خطرہ موجود ہو۔"
جج نے مزید کہا کہ "ایسے جوڑوں کو جو اپنی مرضی سے ایک دوسرے کا انتخاب کرتے ہیں، چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کا سہارا بنیں اور معاشرتی دباؤ کا سامنا کرنا سیکھیں۔ ہر اختلاف یا مخالفت کو خطرہ نہیں کہا جا سکتا۔"
الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو ان جوڑوں کے لیے ایک واضح پیغام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو والدین کی رضا کے بغیر شادی کرتے ہیں اور بعد میں ریاستی تحفظ کی امید رکھتے ہیں۔ عدالت کا کہنا ہے کہ اگر جوڑا خود کو کسی حقیقی خطرے سے دوچار محسوس کرے تو وہ سب سے پہلے مقامی پولیس اسٹیشن سے رجوع کرے۔ اگر پولیس مناسب قدم نہ اٹھائے، تو پھر عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ اگرچہ عدالت مناسب کیسز میں تحفظ فراہم کر سکتی ہے لیکن وہ ہر ایسے کیس میں پولیس فورس کو نہیں لگا سکتی جہاں کوئی حقیقی خطرہ موجود نہ ہو۔
یہ فیصلہ سماج میں ان بڑھتے ہوئے معاملات پر روشنی ڈالتا ہے جہاں نوجوان اپنی پسند سے شادی کرتے ہیں لیکن بعد میں خاندانی مخالفت یا سماجی دباؤ کی بنیاد پر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔ عدالت نے یہ واضح کر دیا ہے کہ تحفظ صرف انہی کو ملے گا جو واقعی خطرے میں ہوں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔