ہاتھرس معاملہ: ملزمان کو بری کئے جانے کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرے گا متاثرہ کا خاندان

خصوصی عدالت کی طرف سے چار میں سے تین ملزمان کو بری کئے جانے سے غیر مطمئن ہاتھرس متاثرہ کا خاندان اب اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرے گا

<div class="paragraphs"><p>عدالتی فیصلہ، علامتی تصویر / آئی اے این ایس</p></div>

عدالتی فیصلہ، علامتی تصویر / آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

ہاتھرس (اتر پردیش): خصوصی عدالت کی طرف سے چار میں سے تین ملزمان کو بری کئے جانے سے غیر مطمئن ہاتھرس متاثرہ کا خاندان اب اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرے گا۔ خیال رہے کہ ستمبر 2020 میں یوپی کے ہاتھرس میں ایک 19 سالہ لڑکی سے ساتھ مبینہ طور پر عصمت دری کی گئی تھی اور اسے قتل کر دیا گیا تھا۔

متاثرہ کے بھائی نے صحافیوں سے کہا، کیا یہ انصاف ہے؟ اب ہم انصاف کے لئے کس دروازے پر جائیں؟ پوری دنیا نے دیکھا کہ ملزم نے میری بہن کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ وہیں، متاثرہ کی بھابی نے کہا ’’اعلیٰ ذاتوں کو انصاف ملا ہے، ہمیں نہیں۔ ہم نے ابھی تک اس کی راکھ کو گنگا میں نہیں بہایا ہے۔ ہم یہ کام اس وقت کریں گے جب چاروں کو سزا ہو جائے گی اور اس وقت تک ہم سکون سے نہیں بیٹھیں گے۔‘‘

دلت خاندان کی وکیل سیما کشواہا نے کہا ’’ہم ہائی کورٹ میں اپیل کریں گے۔ مجھے یقین ہے کہ باقی تینوں کو بھی قصورواور قرار دیا جائے گا۔ یہ عجیب بات ہے کہ سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) نے اپنی تحقیقات کے بعد 376-ڈی (گینگ ریپ)، 376-اے (عصمت دری اور تکلیف پہنچانا جس سے موت واقع ہوتی ہے)، 302 (قتل)، 34 (کئی افراد کے ذریعہ ارتکاب کیا گیا جرم) کے تحت چارج شیٹ داخل کی تھی، اس کے باوجود باقی تین کو سزا نہیں دی گئی۔ رہائی میں سیاسی اثر و رسوخ کا کردار ہو سکتا ہے۔‘‘

اس سے قبل لڑکی کے اہل خانہ نے الزام لگایا تھا کہ اس کی ان کے گھر کے قریب کھلے میدان میں لاش کی آخری رسومات عجلت میں ادا کر دی گئی تھیں، جس کی نگرانی اعلیٰ پولیس افسران اور انتظامیہ کے اہلکار کر رہے تھے۔


اہل خانہ نے الزام لگایا تھا کہ مقامی پولیس نے انہیں خاموشی اور عجلت میں آخری رسومات ادا کرنے پر مجبور کیا۔ یہ ان کی رضامندی کے بغیر کیا گیا اور انہیں لاش گھر لانے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ جبکہ مقامی پولیس نے کہا تھا کہ آخری رسومات خاندان کی خواہش کے مطابق ادا کی گئیں۔ سپریم کورٹ نے ایک پی آئی ایل کی سماعت کرتے ہوئے اس سے قبل اس کیس کو خوفناک قرار دیا تھا اور ریاست سے کہا تھا کہ وہ ایک حلف نامہ داخل کرے جس میں کیس میں گواہوں کی حفاظت کی کوششوں کی تفصیل دی جائے۔

الہ آباد ہائی کورٹ نے یکم اکتوبر 2020 کو از خود نوٹس لینے کے بعد کہا تھا اس جرم نے ان کی روح کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور تقریباً 10 دن بعد کیس کو یوپی پولیس سے سی بی آئی کو منتقل کر دیا گیا، جس نے چاروں ملزمان کے خلاف چارج شیٹ داخل کی۔بعد میں ان پر اجتماعی عصمت دری اور قتل کا الزام عائد کیا گہا۔

دریں اثنا، جمعرات کو بری ہونے والے لو کش کی ماں منی دیوی نے اپنے بیٹے کی رہائی کے حکم کے بعد کہا ’’میں نے سب کچھ عدالت پر چھوڑ دیا تھا۔ مجھے عدلیہ پر پورا بھروسہ ہے۔ میں اب اپنا بیٹا واپس چاہتی ہوں۔‘‘

اس کیس کو سیاسی طور پر محرک قرار دیتے ہوئے سندیپ کے وکیل منا سنگھ پنڈیر نے کہا ’’چار نوجوانوں کو پھنسیا گیا ہے۔ سی بی آئی نے ان سب کے خلاف اجتماعی عصمت دری اور قتل کے الزامات کے تحت چارج شیٹ کی تھی لیکن ان میں سے کوئی بھی (ثبوت) عدالت کے سامنے کھڑا نہیں ہو سکا۔‘‘


اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے یوپی حکومت کے ایک ترجمان نے کہا کہ یہ ایک افسوسناک واقعہ ہے لیکن ریاستی پولیس کا ہمیشہ یہی موقف رہا کہ ہاتھرس کیس میں عصمت دری نہیں ہوئی ہے۔ عدالت نے مرکزی ملزم کو مجرمانہ قتل کے جرم میں قتل نہ ہونے اور ایس سی/ایس ٹی ایکٹ کے تحت مجرم قرار دیا۔ اس سے یوپی پولیس کے موقف کی تصدیق ہوتی ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ متاثرہ نے موت سے قبل علی گڑھ کے ایک مجسٹریٹ کے سامنے دئے گئے اپنے آخری بیان میں چاروں ملزمان کا نام لیا تھا۔ اس کے گھر والوں نے الزام لگایا کہ متاثرہ کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملزمان لڑکی کو کھیت میں گھسیٹ کر لے گئے اور چار اعلیٰ ذات کے لوگوں نے حملہ کیا۔ خصوصی جج ترلوک پال نے کہا کہ کلیدی ملزم سندیپ کے خلاف عصمت دری کا الزام ثابت نہیں ہو سکا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */