ہاتھرس معاملہ: عصمت دری کے 3 دن بعد فورنسک جانچ بے معنی، رپورٹ پر علی گڑھ جے این کالج کے چیف میڈیکل افسر کا دعویٰ

علی گڑھ اسپتال کے چیف میڈیکل افسر نے کہا کہ ایف ایس ایل جانچ کے لیے سیمپل 25 ستمبر کو لیا گیا تھا، یعنی واقعہ کے تقریباً 11 دن بعد۔ جبکہ 4-3 دن بعد عصمت دری متاثرہ سے نطفہ کے نشان مٹ جاتے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

آس محمد کیف

اتر پردیش کے ہاتھرس اجتماعی عصمت دری معاملہ میں طبی جانچ اور ایف ایس ایل رپورٹ کو لے کر ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔ یو پی پولس کی جانب سے اے ڈی جی پی پرشانت کمار نے دعویٰ کیا ہے کہ ایف ایس ایل رپورٹ میں عصمت دری کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔ لیکن اس سے پہلے جے این میڈیکل کالج، علی گڑھ سے جاری کی گئی میڈیکو اگزامنیشن رپورٹ میں 'وجائنل پینیٹریشن' اور زبردست کیے جانے کی بات کہی گئی ہے۔ اس بحث میں ایک تصویر کو صاف کرنے کے لیے ہم نے علی گڑھ اسپتال کے چیف میڈیکل افسر (سی ایم او) ڈاکٹر ایم اے ملک سے بات کی۔ ان سے بات چیت کے اہم اقتباسات یہاں پیش کیے جا رہے ہیں۔

متاثرہ کو آپ کے یہاں کب داخل کرایا گیا تھا اور اس وقت اس کی کیا حالت تھی؟

ان کو یہاں 14 ستمبر کو لایا گیا تھا۔ ہمارے میڈیکل اسٹاف کی ایمرجنسی نے انھیں اٹینڈ کیا تھا۔ تب ان کی زبان کٹی ہوئی تھی۔ گردن پر گہرا نشان تھا۔ ان کے دونوں ہاتھ اور پیروں نے کام کرنا بند کر دیا تھا۔ وہ بیٹھ نہیں پا رہی تھی۔ اسپائنل انجری کے معاملے میں ایسا ہو جاتا ہے۔ تب اس کی آنکھ میں بھی سوزن تھی۔ اس دن جب وہ آئی تھی تو کچھ بھی بول نہیں پا رہی تھی۔ ان کی پیشنٹ ہسٹری کے بارے میں ان کے والدین نے بتایا تھا۔


کیا تب آپ کو بتایا گیا تھا کہ ان کے ساتھ عصمت دری ہوئی ہے؟

نہیں، تب کسی نے یہ نہیں بتایا۔ وہ تو بول ہی نہیں پا رہی تھی۔ ان کے والدین نے نہیں بتایا۔ ہمیں شکایت کی گئی کہ گلا دبانے کی کوشش ہوئی ہے۔ تب ہم نے اسے نیوروسرجری میں ایڈمٹ کرا دیا۔ علاج شروع ہوا۔ اسے ہائی ڈیپنڈنسی میں ہم نے رکھا۔ وہ ہاتھرس سے یہاں ریفر کی گئی تھی۔

ہاتھرس معاملہ: عصمت دری کے 3 دن بعد فورنسک جانچ بے معنی، رپورٹ پر علی گڑھ جے این کالج کے چیف میڈیکل افسر کا دعویٰ
ہاتھرس معاملہ: عصمت دری کے 3 دن بعد فورنسک جانچ بے معنی، رپورٹ پر علی گڑھ جے این کالج کے چیف میڈیکل افسر کا دعویٰ
ہاتھرس معاملہ: عصمت دری کے 3 دن بعد فورنسک جانچ بے معنی، رپورٹ پر علی گڑھ جے این کالج کے چیف میڈیکل افسر کا دعویٰ
ہاتھرس معاملہ: عصمت دری کے 3 دن بعد فورنسک جانچ بے معنی، رپورٹ پر علی گڑھ جے این کالج کے چیف میڈیکل افسر کا دعویٰ
ہاتھرس معاملہ: عصمت دری کے 3 دن بعد فورنسک جانچ بے معنی، رپورٹ پر علی گڑھ جے این کالج کے چیف میڈیکل افسر کا دعویٰ
ہاتھرس معاملہ: عصمت دری کے 3 دن بعد فورنسک جانچ بے معنی، رپورٹ پر علی گڑھ جے این کالج کے چیف میڈیکل افسر کا دعویٰ

پہلی بار عصمت دری کی بات کہاں سے سامنے آئی؟

جب تک پیشنٹ ٹھیک سے بات نہ کرنے لگے اور بیان دینے کی حالت میں نہ ہو تو بیان درج نہیں کرتے ہیں۔ مطلب ریکارڈ نہیں کر سکتے ہیں۔ 22 ستمبر کو ہمیں نیورو سرجری سے بتایا گیا کہ مریض اب بیان دے سکتی ہے، اس لیے آپ لوگ مجسٹریٹ کو بلوا لیجیے۔ پھر ہم نے مجسٹریٹ کو کال کیا تو شام میں ساڑھے پانچ بجے (22 ستمبر) کو وہ آئے۔ اس وقت میں خود ڈیوٹی پر تھا اور میں مجسٹریٹ کے ساتھ گیا۔ ایک خاتون نرس بھی ساتھ میں تھی۔

جب مجسٹریٹ اسٹیٹمنٹ یعنی بیان ریکارڈ کرتے ہیں تو ڈاکٹر کا کام ہوتا ہے کہ مریض کی حالت کو دیکھا کہ وہ اپنا بیان دینے لائق ہے یا نہیں۔ باقی اتنا پوچھنے کے بعد ہم پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ یہ ہم نے کیا، مجسٹریٹ نے بیان ریکارڈ کیا۔ حالانکہ میرے اسٹاف نے مجھے بتایا کہ انھیں مریض نے بتایا ہے کہ ان کے ساتھ عضو تناسل سے 'وجائنل پینیٹریشن' ہوا ہے۔ اس کے بعد ہم نے جانچ کروائی۔


کیا آپ کی میڈیکل رپورٹ (ایم ایل سی) بتاتی ہے کہ وجائنل پینیٹریشن ہوا تھا؟

جس دن اس لڑکی (متاثرہ) نے مجسٹریٹ کو بیان دیا، اس دن صبح میں یہی بات متاثرہ نے ہماری سسٹر (اسٹاف نرس) کو بتائی تھی۔ ایس آئی ٹی میں یہ سسٹر گواہ ہے۔ مجھے میرے اسٹاف نے بتایا کہ انھیں مریض نے بتایا ہے کہ اس کے ساتھ 'وجائنل پینیٹریشن' ہوا ہے۔ ان کے بیان درج ہوئے ہیں۔ وجائنل پینیٹریشن کا مطلب ہوتا ہے کہ عضو خاص میں کسی باہری چیز کا دخول ہوا ہے۔ ہم نے اپنی میڈیکل اگزامنیشن میں جو پایا ہے، وہی لکھا ہے۔ ایف ایس ایل رپورٹ میں تاخیر ہوئی ہے۔

ہاتھرس معاملہ: عصمت دری کے 3 دن بعد فورنسک جانچ بے معنی، رپورٹ پر علی گڑھ جے این کالج کے چیف میڈیکل افسر کا دعویٰ
ہاتھرس معاملہ: عصمت دری کے 3 دن بعد فورنسک جانچ بے معنی، رپورٹ پر علی گڑھ جے این کالج کے چیف میڈیکل افسر کا دعویٰ

یو پی پولس تب یہ کیسے کہہ رہی ہے کہ عصمت دری نہیں ہوئی ہے؟

ایف ایس ایل رپورٹ کی بنیاد پر وہ یہ کہہ رہے ہیں۔ ہم نے اس سلسلے میں اپنی رائے نہ دیتے ہوئے فورنسک لیب کو بھیج دیا۔ ہم جانتے ہیں کہ ڈاکٹر کو جنسی تشدد کی نہ تردید کرنی چاہیے اور نہ ہی تصدیق کرنی چاہیے۔ یہ وزارت صحت کے ذریعہ دیا گیا پروٹوکول ہے۔ اس رپورٹ کا ہمارے جس ڈاکٹر نے جائزہ لیا ہے، انھوں نے لکھا ہے کہ مقامی ٹیسٹ کی بنیاد پر زبردست کیے جانے کے نشان ہیں۔

ایف ایس ایل کا سیمپل 25 ستمبر کو لیا گیا تھا، یعنی واقعہ کے تقریباً 11 دن بعد۔ اس میں اسپرم (نطفہ) نہیں ملے ہیں۔ تین سے چار دن بعد عصمت دری متاثرہ سے نطفہ کے نشان مٹ جاتے ہیں۔ ایسے میں ان کے ملنے کا کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا۔ اسی وجہ سے کسی متاثرہ کو نہانے، کپڑے بدلنے وغیرہ کے لیے منع کیا جاتا ہے۔ اتنے دنوں بعد تک سویب کے سیمپل میں اسپرم یا اووا کا ملنا ممکن نہیں ہوتا ہے۔ متاثرہ جب اسپتال پہنچی تھی تو داخل ہونے کے وقت اس کے کپڑے دھلے ہوئے اور صاف تھے۔ اَنڈر گارمنٹس بھی بدلے ہوئے تھے۔ ایسے میں نشان ملنے کی امید صفر ہو جاتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔