ہاتھرس سانحہ: مدد مانگتی ہے یہ حوّا کی بیٹی... سہیل انجم

اترپردیش کی یوگی حکومت ہر محاذ پر بری طرح فیل ہے۔ یوگی نے اقتدار میں آتے ہی بڑے طمطراق سے اعلان کیا تھا کہ اب ریاست کو جرائم سے پاک کر دیا جائے گا۔ لیکن کیا ہوا۔ جرائم کا گراف چڑھتا ہی جا رہا ہے۔

تصویر اے آئی سی سی
تصویر اے آئی سی سی
user

سہیل انجم

اس وقت ہاتھرس کے گینگ ریپ کا واقعہ، متاثرہ کی موت اور اس معاملے میں ریاستی حکومت اور پولیس انتظامیہ کی سنگ دلی ملکی و غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں موضوع بحث ہیں۔ ان واقعات نے پورے ملک کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور عوام ملک کے کونے کونے میں سراپا احتجاج ہیں۔ اس ظلم کے خلاف بالکل اسی انداز میں عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں جیسے کہ نربھیا واقعہ کے وقت نکل آئے تھے۔ عوامی احتجاج نے سماج میں ایک زلزلہ برپا کر دیا ہے۔ لیکن مرکزی اور ریاستی حکومت کا ضمیر تادم تحریر بیدار نہیں ہوا ہے۔ اترپردیش کی یوگی حکومت اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے متاثرہ خاندان کو ہی اپنے جبر کا نشانہ بنا رہی ہے۔ اگر چہ چند پولیس افسروں کا تبادلہ کر دیا گیا ہے لیکن متاثرہ خاندان کو ابھی تک انصاف نہیں مل سکا ہے۔ اس درندگی کے ذمہ دار چار افراد اگر چہ گرفتار کر لیے گئے ہیں لیکن اونچی ذات کے لوگ انھیں بچانے کی بھی کوشش کر رہے ہیں اور انتہائی بے شرمی کے ساتھ ان کے حق میں مظاہرے کر رہے ہیں۔

انیس سالہ دلت خاتون کو 14 ستمبر کو وحشیوں نے اس وقت اپنی ہوس کا شکار بنایا تھا جب وہ گائے کے لیے قریب کے کھیت میں گھاس کاٹنے گئی تھی۔ اس کو جنسی ہوس پرستی کا شکار بنانے کے ساتھ ساتھ اس طرح جسمانی اذیت بھی دی گئی کہ اس کی زبان کٹ گئی، ریڑھ کی ہڈی میں فریکچر ہو گیا اور گردن پر گلا گھونٹنے کے نشانات بن گئے۔ وہ بے ہوش ہو گئی۔ 23 ستمبر کو اس کو ہوش آیا اور اس نے شیطان صفت انسانوں کے نام بتائے۔ اس کا پورا جسم مفلوج ہو گیا۔ اسے وینٹی لیٹر پر رکھا گیا۔ جب اس کی حالت بہت خراب ہو گئی تو اسے دہلی کے صفدر جنگ اسپتال میں داخل کیا گیا جہاں 29 ستمبر کو اس نے آخری سانس لی۔ اس دوران یو پی حکومت اور پولیس کی جانب سے لیپا پوتی کی جاتی رہی۔ اس کے اہل خانہ نے جب رپورٹ لکھانے کی کوشش کی تو ملزموں پر گینگ ریپ کے بجائے مار پیٹ کے الزامات عاید کیے گئے۔


بتایا جاتا ہے کہ ملزموں کا تعلق ہندووں کی اونچی برادری سے ہے اور لوگوں کا الزام ہے کہ شاید یہی وجہ ہے کہ وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ جو کہ خود اونچی برادری سے تعلق رکھتے ہیں، وہ کارروائی نہیں کر رہے ہیں جو کہ کرنی چاہیے۔ اس واقعہ کا دلدوز پہلو یہ ہے کہ جب 29 ستمبر کی شب میں متاثرہ کی موت ہو گئی اور اس کے اہل خانہ اور دوسرے لوگوں نے صفدر جنگ اسپتال کے باہر دھرنا دے دیا تو پولیس چپکے سے اس کی لاش لے کر ہاتھرس چلی گئی اور صبح کے تین بجے اس کی آخری رسوم ادا کر دی گئیں۔ اس موقع پر متاثرہ کے والدین اور اس کے گھر کا کوئی فرد وہاں موجود نہیں تھا۔ ان لوگوں نے پولیس سے درخواست کی کہ ہندو ریت رواج کے مطابق غروب آفتاب سے لے کر طلوع آفتاب کے درمیان آخری رسوم ادا نہیں کی جا سکتیں۔ لیکن پولیس نے ایک نہیں سنی۔

اس کے بعد جب میڈیا متاثرہ کے گاؤں جانے لگا تو اسے روکا گیا۔ صرف میڈیا کو ہی نہیں بلکہ کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی اور ان کی بہن اور اتر پردیش کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی کو بھی روکا گیا۔ اس موقع پر پولیس نے طاقت کا استعمال کیا۔ یہاں تک کہ پولیس کے ساتھ دھکا مکی میں راہل گاندھی زمین پر گر گئے۔ جب حکومت اور پولیس کی اس کارروائی پر پورے ملک میں تھو تھو ہونے لگی تب دو روز کے بعد انھیں ہاتھرس جانے کی اجازت دی گئی۔ راہل اور پرینکا گاندھی نے اس گاؤں میں پہنچ کر متاثرہ کے اہل خانہ سے ملاقات کی اور انھیں انصاف دلانے کی یقین دہانی کرائی۔ اس سلسلے میں تفصیلات میڈیا میں آچکی ہیں۔


بی جے پی جو کہ بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ لگاتی ہے اس معاملے میں بری طرح بے نقاب ہو گئی ہے۔ وزیر اعظم خاموش ہیں، ان کے کابینی رفقا خاموش ہیں۔ بی جے پی لیڈران چپ ہیں۔ اگر وہ زبان بھی کھولتے ہیں تو یہ الزام لگانے کے لیے کہ راہل گاندھی اس معاملے پر سیاست کر رہے ہیں۔ ایسے معاملات میں سیاست کرنے کا ہنر تو بی جے پی کو آتا ہے۔ جب وہ اقتدار میں نہیں تھی تو اس نے کن کن واقعات پر سیاست کی اور کیسے کیسے کی یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر چہ عوام کا حافظہ کمزور ہوتا ہے پھر بھی وہ بی جے پی کی دوہری پالیسی سے واقف ہیں اور انھیں سب کچھ یاد ہے۔

اترپردیش میں صرف ہاتھرس ہی نہیں بلکہ بلرام پور، بلند شہر، میرٹھ، اعظم گڑھ اور کہاں کہاں لڑکیوں کے ساتھ جنسی جرائم نہیں ہو رہے ہیں۔ بی جے پی کے لیڈران اور وزیر اعلیٰ دعوے تو کرتے ہیں کہ وہ رام راجیہ لا رہے ہیں لیکن کیا یہی رام راجیہ ہے کہ لڑکیوں اور عورتوں کی عزت اور ان کی جان محفوظ نہ رہے۔ کہیں کسی لڑکی کا سر پتھر سے کچل کر اسے ہلاک کر دیا جاتا ہے اور کہیں اس کی عزت لوٹ کر اسے مار دیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود یہ سیاست داں بے شرمی کے ساتھ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ جرائم کو برداشت نہیں کریں گے اور کسی کو بخشا نہیں جائے گا۔ جبکہ اسی ہاتھرس کے واقعہ میں ملزموں کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پولیس ان کے اہل خانہ سے وعدے کر رہی ہے کہ ان کے بچوں کو کچھ نہیں ہونے دیا جائے گا۔


نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو نے چند روز قبل خواتین کے خلاف جرائم کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں جس کے مطابق ہندوستان میں ہر پندرہ منٹ پر ریپ کا ایک واقعہ ہوتا ہے۔ 2014 سے لے کر اب تک شیڈولڈ کاسٹ اور شیڈولڈ ٹرائب کے خلاف جرائم میں علی الترتیب 13.9 اور 14.8 فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور بیشتر جرائم ریپ اور جنسی حملوں کی شکل میں پیش آئے ہیں۔ 2018 میں ہر پندرہ منٹ پر ایک خاتون کی عزت لوٹ لی گئی۔ اس ایک سال میں ریپ کے 33,977 واقعات پیش آئے۔ کٹھوعہ کی آٹھ سالہ بچی کی اجتماعی عصمت دری اور اس کے قتل اور مندسور کی ایک آٹھ سالہ بچی کے اجتماعی عصمت دری اور درندوں کے ذریعے اس کا گلا کاٹ دینے کے واقعات اس میں شامل ہیں۔ جب 2012 میں نربھیا واقعہ پیش آیا تھا تو اس سال عصمت دری کے 24,923 واقعات ہوئے تھے۔ جبکہ بہت سے واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوئے۔

حقیقت یہ ہے کہ اترپردیش کی یوگی حکومت ہر محاذ پر بری طرح فیل ہے۔ یوگی نے اقتدار میں آتے ہی بڑے طمطراق سے اعلان کیا تھا کہ اب ریاست کو جرائم سے پاک کر دیا جائے گا۔ لیکن کیا ہوا۔ جرائم کا گراف چڑھتا ہی جا رہا ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ جرائم میں زیادہ تر وہی لوگ ملوث پائے جا رہے ہیں جن کو حکومت کی شہ یا سیاسی سرپرستی حاصل ہے۔


اناؤ میں بی جے پی رکن اسمبلی کلدیپ سنگھ سینگر کا واقعہ ابھی تک لوگوں کو یاد ہوگا جب وہ اور ان کے بھائی اور ان کے غنڈوں نے ایک غریب خاندان کی لڑکی اور اس کے والد پر قیامت توڑی تھی۔ اس واقعہ میں کافی دنوں تک مجرموں کو بچانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ قانون کہتا ہے کہ اگر کسی کے خلاف ایف آئی آر درج ہو تو اسے فوراً گرفتار کیا جائے۔ لیکن سینگر کو پہلے تو کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ پھر انھیں حراست میں لیا گیا اور جب الہ آباد ہائی کورٹ نے لتاڑ لگائی تب کہیں جا کر گرفتار کیا گیا۔ اس معاملے میں پولیس کی یکطرفہ کارروائی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ متاثرہ لڑکی کے والد کو بلا وجہ گرفتار کر لیا گیا تھا۔ پولیس کے سامنے ہی اس کو اس قدر زد و کوب کیا گیا کہ اس کی موت ہو گئی۔ اس نے مرنے سے قبل اپنے بیان میں قصورواروں کے نام لیے تھے۔ تب کہیں جا کر کارروائی ہوئی اور عدالت نے کلدیپ سنگھ سینگر اور ان کے بھائی کو دس سال کی سزا سنائی۔ یوگی حکومت میں ایسے واقعات کی بھرمار ہے کس کس کا ذکر کیا جائے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 04 Oct 2020, 10:10 PM