دھرم سنسد معاملہ پر دہلی پولیس کا ’یو-ٹرن‘، سپریم کورٹ میں کہا ’مواد کی جانچ کے بعد درج کی گئی ایف آئی آر‘

دھرم سنسد میں اشتعال انگیز تقریر معاملے میں حلف نامہ پر سپریم کورٹ کے ذریعہ پھٹکار لگائے جانے کے کچھ دنوں بعد پولیس نے یو-ٹرن لیا اور عدالت کو بتایا کہ اس نے مواد کی جانچ کے بعد ایف آئی آر درج کی۔

دہلی پولیس اور سپریم کورٹ
دہلی پولیس اور سپریم کورٹ
user

قومی آوازبیورو

دھرم سنسد میں اشتعال انگیز تقریر معاملے میں حلف نامہ پر سپریم کورٹ کے ذریعہ پھٹکار لگائے جانے کے کچھ دنوں بعد پولیس نے یو-ٹرن لیتے ہوئے سپریم کورٹ کو بتایا کہ اس نے مواد کی جانچ کے بعد ایف آئی آر درج کی۔ ایک تازہ حلف نامہ میں پولیس نے کہا کہ شکایت میں دیے گئے سبھی لنک اور پبلک ڈومین میں دستیاب دیگر مواد کا تجزیہ کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں ایک ویڈیو یوٹیوب پر پایا گیا۔ حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ ’’مواد کے سرٹیفکیشن کے بعد تعزیرات ہند کی دفعہ 153اے، 295اے، 298 اور 34 کے تحت جرائم کے لیے اوکھلا انڈسٹریل ایریا پولیس اسٹیشن میں 4 مئی 2022 کو ایف آئی آر درج کی گئی۔‘‘ ساتھ ہی پولیس نے کہا کہ قانون کے مطابق اس معاملے کی جانچ کی جائے گی۔

اس سے قبل دائر کیے گئے حلف نامہ میں دہلی پولیس نے کہا تھا کہ ’’ویڈیو کے مواد کی گہرائی سے جانچ اور تجزیہ کے بعد پولیس کو شکایت دہندگان کے ذریعہ لگائے گئے الزامات کے مطابق ویڈیو میں کوئی مواد نہیں ملا۔ دہلی کے واقعہ کی ویڈیو کلپ میں کسی خاص طبقہ کے خلاف کوئی بیان نہیں ہے۔ لوگ اپنے طبقہ کی اخلاقیات کو بچانے کے مقصد سے وہاں جمع ہوئے تھے۔‘‘


دہلی پولیس نے حلف نامہ میں یہ بھی کہا تھا کہ واقعہ کی ویڈیو کلپ میں کسی خاص طبقہ یا فرقہ کے خلاف کوئی بیان دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔ دہلی پولیس کے ذریعہ داخل جوابی حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ ’’اس لیے جانچ کے بعد مزید مبینہ ویڈیو کلپ کے تجزیہ کے بعد یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ مبینہ تقریر میں کسی خاص فرقہ کے خلاف کسی بھی طرح کے نفرت بھرے الفاظ کا استعمال نہیں کیا گیا تھا۔‘‘ پولیس کا کہنا ہے کہ ’’ایسے الفاظ کا کوئی استعمال نہیں ہے جن کا مطلب مسلمانوں کی نسل کشی کے کھلے اعلان کی شکل میں یا اس طرح کی تشریح کے ساتھ کیا جا سکے۔‘‘

واضح رہے کہ 22 اپریل کو عرضی دہندگان کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل کپل سبل نے کہا تھا کہ دہلی پولیس نے کہا کہ معاملے کی جانچ کی گئی ہے اور یہ مناسب تھا کہ لوگ اپنے فرقہ کی اخلاقیات کو بچانے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ دہلی پولیس نے اپنے حلف نامہ میں کہا تھا کہ ویڈیو اور دیگر مواد کی جانچ میں پایا گیا کہ کسی بھی طبقہ کے خلاف کوئی ہیٹ اسپیچ (نفرت انگیز تقریر) نہیں دی گئی تھی۔


جسٹس اے ایم کھانولکر نے نوٹ کیا کہ پولیس ڈپٹی کمشنر کے ذریعہ حلف نامہ دائر کیا گیا تھا۔ انھوں نے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل (اے ایس جی) کے. ایم. نٹراج سے پوچھا کہ کیا آپ اس پوزیشن کو قبول کرتے ہیں۔ ہم سمجھنا چاہتے ہیں۔ کیا کسی سینئر افسر نے اسے سرٹیفائیڈ کیا ہے؟

بنچ جس میں جسٹس ابھے ایس. اوکا بھی شامل ہیں، نے کہا کہ ’’ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ سینئر افسر نے اس حلف نامے کو داخل کرنے سے پہلے دیگر پہلوؤں کی باریکیوں کو سمجھا ہے یا نہیں۔ کیا انھوں نے صرف ایک جانچ رپورٹ کو تیار کیا ہے یا اپنا دماغ لگایا ہے؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ اسے پھر سے دیکھا جائے؟‘‘ جسٹس کھانولکر نے آگے سوال کیا کہ ’’کیا آپ کا بھی یہی اسٹینڈ ہے۔ یا سب انسپکٹر سطح کے افسر کی جانچ رپورٹ کو از سر نو تیار کیا گیا ہے؟‘‘


اس کے بعد دہلی پولیس کی نمائندگی کر رہے نٹراج نے کہا کہ ہمیں (حلف نامے کو) پھر سے دیکھنا ہوگا۔ جسٹس کھانولکر نے نٹراج سے پوچھا ’’کیا آپ پورے معاملے پر پھر سے غور کرنا چاہتے ہیں؟ کیا یہ دہلی کے پولیس کمشنر کا رخ ہے؟‘‘ جواب میں نٹراج نے کہا کہ متعلقہ افسران سے ہدایت لینے کے بعد نیا حلف نامہ داخل کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے نوٹ کیا کہ اے ایس جی نے معاملے میں بہتر حلف نامہ داخل کرنے کے لیے مزید وقت مانگا ہے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ صحافی قربان علی اور پٹنہ ہائی کورٹ کی سابق جج اور سینئر وکیل انجنا پرکاش کے ذریعہ داخل ایک عرضی پر سماعت کر رہا ہے جس میں گزشتہ سال ہریدوار اور دہلی میں منعقد پروگراموں (دھرم سنسد) کے دوران مبینہ طور سے نفرت پھیلانے والی تقریر دینے والوں کے خلاف جانچ اور کارروائی یقینی کرنے کی ہدایت دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔