’ہمارے خلاف کھلے عام نفرت پھیلائی جا رہی ہے‘، سینکڑوں مسلمانوں نے چھوڑا گروگرام اور نوح

فرقہ وارانہ فسادات کے معاملے میں نوح پولیس نے اب تک 230 لوگوں کو حراست میں لیا ہے جبکہ گروگرام پولیس نے 79 لوگوں کو گرفتار کیا ہے، دونوں ہی مقامات پر حالات اب بھی معمول پر نہیں آئے ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر آئی اے این ایس</p></div>

تصویر آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

’’میری فیملی کو پیسہ نہیں چاہیے۔ وہ صرف یہی چاہتے ہیں کہ میں گاؤں واپس لوٹ جاؤں۔‘‘ یہ بیان ہے بہار کے ایک مہاجر مزدور عمران علی کا جو 31 جولائی کو پیش آئے تشدد کے بعد خوف کے مارے گروگرام سے ہجرت کر گیا۔ 25 سالہ عمران علی تشدد کے دو ہفتے بعد اپنا سامان لینے کے لیے گروگرام لوٹا تھا۔ علی نے خبر رساں ایجنسی آئی اے این ایس کو بتایا کہ ’’میری فیملی نے مجھے کہا ہے کہ میں گروگرام میں کام نہ کروں اور فوراً لوٹ آؤں۔ کافی سمجھانے کے بعد بھی وہ نہیں مانے اور مجھ سے فوراً واپس لوٹنے کو کہا۔‘‘

31 جولائی کو نوح میں فرقہ وارانہ فساد بھڑک اٹھے تھے جس میں چھ لوگ مارے گئے، جبکہ 88 سنگین طور سے زخمی ہو گئے تھے۔ نوح ضلع میں وی ایچ پی کے ذریعہ منعقد ایک مذہبی جلوس کے دوران مبینہ پتھراؤ کے بعد مذہبی فساد بھڑک اٹھا تھا۔ نوح کے ایک مسلم باشندہ، جس کے گھر پر بلڈوزر چلا تھا، نے آئی اے این ایس کو بتایا کہ انھیں طویل مدت سے احساس تھا کہ بی جے پی کی مذہبی بیان بازی سے فسادات ہوں گے اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ انھوں نے نام نہ شائع کرنے کی شرط پر کہا کہ ’’بیشتر ہندو یہ مانتے ہیں کہ نوح کے لوگ فسادات میں شامل تھے، جو کہ سچ نہیں ہے۔ ہندوؤں کی طرح ہم مسلمان بھی یکساں طور سے ہندوستانی ہیں۔‘‘ انھوں نے یاد دلایا کہ کیسے یاترا کے دوران ہندوؤں نے مسلمانوں کے خلاف نازیبا کلمات کا استعمال کیا تھا۔


واضح رہے کہ فرقہ وارانہ فسادات کے معاملے میں نوح پولیس نے اب تک 230 لوگوں کو حراست میں لیا ہے جبکہ گروگرام پولیس نے 79 لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔ دونوں ہی مقامات پر حالات اب بھی معمول پر نہیں آئے ہیں۔ گروگرام میں رہنے والے ایک مسلم شخص کا کہنا ہے کہ ’’ہندو گروپ کھلے عام ہمارے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں۔ سینکڑوں لوگوں کے درمیان ہندو گروپ مسلمانوں کا بائیکاٹ کرنے، ہماری دکانوں سے کچھ بھی نہیں خریدنے اور مکان کرایہ پر نہیں دینے کا اعلان کر رہے ہیں۔ انھوں نے ہمارے کاروبار کو برباد کر دیا ہے اور سینکڑوں مسلمانوں نے گروگرام چھوڑ دیا ہے۔‘‘

ایک احمد خان نامی شخص نے گروگرام شہر چھوڑتے وقت کہا کہ ’’حالانکہ حالات معمول پر ہونے کے بعد ان میں سے کچھ واپس آ جائیں گے، لیکن فی الحال حالات خراب ہیں۔ پولیس اور انتظامیہ اپنے ہی ملک میں مسلمانوں کی حفاظت کرنے میں پوری طرح سے ناکام رہی۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’ہندو سوچتے ہیں کہ اس ملک میں سب کچھ ان کا ہے، یعنی پولیس، انتظامیہ اور اب سڑکیں بھی۔‘‘ احمد خان کا کہنا ہے کہ ’’ایسا لگتا ہے جیسے ہم مسلمانوں کو اس ملک میں کوئی حق ہی نہیں ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔