باقی رافیل طیاروں کی آمد پر خاموشی کیوں؟ کیا امریکہ کو خوش کرنے کے لیے بدل گیا رافیل خریداری کا فیصلہ!

رافیل طیاروں کے معاہدے میں جتنی رازداری ہوئی، اتنی کسی بھی دفاعی معاہدے میں نہیں اختیار کی گئی۔ اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ ابھی تک صرف 5 رافیل ہی ہندوستان کو ملے ہیں، بقیہ پر حکومت کی خاموشی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سروش بانا

اب تک ہندوستان نے جتنے بھی دفاعی معاہدے کیے، ان میں سے 2015 میں ہوا رافیل معاہدہ سب سے خفیہ اور مشتبہ ہے۔ اس معاہدے کو 5 سال سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے اور اس کو لے کر متعدد سوال بھی اٹھے، لیکن جواب کسی کا نہیں ملا۔ پھر بھی ایک سوال ہے جو سوچنے پر مجبور کرتا ہے، آخر اتنی رازداری کیوں؟

ہندوستان نے فرانس کے دسالٹ ایوی ایشن کے ساتھ 36 رافیل ملٹی رول جنگی جہازوں کی خریداری کے لیے 7.87 ارب یورو کے جس معاہدے پر دستخط کیے، اس میں اول درجے کی عدم وضاحت ہے۔ ہندوستانی فضائیہ نے جن جنگی جہازوں کا مطالبہ 2005 میں کیا تھا، اس میں سے صرف 5 طیارہ ہی اس سال 29 جولائی تک ہندوستان پہنچے ہیں، باقی 31 طیارے 2022 تک آنے ہیں۔


وزیر اعظم نریندر مودی نے اپریل 2015 میں فرانس کے اپنے سرکاری دورہ کے دوران حیرت انگیز طریقے سے معاہدہ پر دستخط کیے اور اسے دو حکومتوں کے درمیان کا معاہدہ قرار دیا۔ اس وقت کے مرکزی وزیر دفاع منوہر پاریکر سمیت ان کی کابینہ کے کسی بھی رکن کو پہلے سے اس کی کوئی خبر نہیں تھی۔ پاریکر تو فرانس گئے وزیر اعظم کی ٹیم کا حصہ بھی نہیں تھے جب کہ روایت کے مطابق ایسے معاہدوں پر دستخط وزیر دفاع کرتا ہے۔

اس معاہدہ سے قبل کی یو پی اے حکومت اور 126 رافیل کے لیے دسالٹ کے درمیان 8.86 ارب یورو (تقریباً 67 ہزار کروڑ روپے) کے سستے معاہدے کو منسوخ کر دیا گیا۔ گزشتہ معاہدہ میں صرف 18 طیاروں کی درآمدگی شامل تھی، بقیہ 108 سودیشی طور پر عوامی ملکیت والی ایرو اسپیس کمپنی ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ (ایچ اے ایل) کے ذریعہ حاصل لائسنس کے تحت بنائے جانے تھے۔ مودی کے معاہدہ نے ایچ اے ایل کو باہر کر دیا اور اس نے دسالٹ اور کسی ہندوستانی شراکت دار کمپنی کے ملک میں ہی مشترکہ طور سے بقیہ طیاروں کی مینوفیکچرنگ کی شرط ختم کر دی جب کہ ہندوستان کی دفاعی خرید عمل کے تحت ایسا ضروری تھا۔ یو پی اے حکومت کا ٹینڈر آفیشیل طور پر جولائی 2015 میں واپس لے لیا گیا تھا۔


سال 2012 میں رافیل کو چھ دیگر دعویداروں- امریکہ کی دو اہم اسلحہ ساز کمپنی لاک ہیڈ مارٹن کے ایف-16 بلاک 70 اور بوئنگ کے ایف/اے-18 سپر ہارنیٹ بلاک-3، سویڈن کی ساب کے جے اے ایس-39 گریپین ای، یوروپی یونین کے یورو فائٹر ٹائفون اور روس کی میکوین-گریوِچ کارپوریشن کے مگ-35 کے مقابلے منتخب کیا گیا تھا۔ لاک ہیڈ اور بوئنگ کے دوڑ سے باہر ہونے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے اگلے ہی دن ہندوستان میں اس وقت کے امریکی سفیر ٹموتھی رومر کو استعفیٰ دے دینا پڑا۔ ان کا جانا اس وقت کے امریکی صدر براک اوباما اور اس وقت ہندوستانی وزیر اعظم منموہن سنگھ کے درمیان اس بات چیت کے ضمن میں تھا جس میں اوباما نے کہا تھا کہ امریکی جنگی طیارہ کے حق میں فیصلہ کرنا ہند-امریکہ کی اسٹریٹجک شراکت داری کو مضبوط کرے گا اور اس سے دونوں ممالک میں ہزاروں ملازمتیں پیدا ہوں گی۔

مودی حکومت کے دوران ہوئے رافیل معاہدہ کا ایک اور پہلو اندیشہ پیدا کرتا ہے۔ آخر باقی بچے 90 طیاروں کے بارے میں حالات واضح کیوں نہیں کیے گئے جب کہ اصل ٹنڈر کے مطابق ہندوستانی بحریہ کے لیے اتنے طیاروں کا انتظام کرنے کی بات تھی۔ ہندوستانی فضائیہ نے 1980 کی دہائی کے شروع سے ہی اس کی ریڑھ رہے سوویت دور کے پرانے مگ طیاروں کو بدلنے کے لیے سال 2005 میں نئے جنگی طیاروں کی خرید کے لیے شروعاتی ٹنڈر جاری کیے تھے، جس میں اس نے اپنی ضرورتوں کو واضح بھی کیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ 2012 میں پچھڑ گئی امریکی کمپنیوں کی واپسی کی زمین تیار کرنے کے لیے ہی ایسا کیا گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 05 Sep 2020, 5:46 PM