ہریانہ حکومت میں بغاوت! انل وِج نئے وزراء کی حلف برداری سے غائب، جے جے پی کی میٹنگ میں بھی صرف 8 اراکین اسمبلی ہی پہنچے

2 وزراء کی حلف برداری کے بعد کھٹر حکومت میں وزراء کی تعداد اب 14 ہو گئی ہے، وزیر اعلیٰ نے حلف برداری تقریب کے بعد یہ بھی واضح کر دیا کہ یہ حکومت کی پہلی اور آخری کابینہ توسیع ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

دھیریندر اوستھی

ہریانہ حکومت میں کیا بغاوت ہو گئی ہے؟ کھٹر حکومت میں سب سے طاقتور محکمہ سنبھالنے والے انل وِج بی جے پی-جے جے پی حکومت میں بنائے گئے دو نئے وزراء کی حلف برداری تقریب میں شامل نہیں ہوئے۔ اس سے ایک بار پھر یہ ثابت ہو گیا ہے کہ اس حکومت میں اقتدار کے دو مرکز ہیں۔ شام چار بجے شروع ہونے والی تقریب 20 منٹ تاخیر سے شروع ہو پائی اور اس کی وجہ بھی انل وِج ہی مانے جا رہے ہیں۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ آخری وقت تک انل وِج کو منانے کی کوشش ہوئی لیکن حکومت کامیاب نہیں ہو پائی۔

ہریانہ میں بی جے پی-جے جے پی حکومت بننے کے تقریباً سوا دو سال بعد منگل کو کابینہ کی توسیع تو ہو گئی، لیکن یہ اس بات کی پھر تصدیق کر گیا کہ حکومت میں دراڑ گہری ہے۔ گزشتہ اسمبلی انتخاب کے بعد بنی اتحادی حکومت میں وزرا کے دو عہدے خالی رکھے گئے تھے جس سے کسی طرح کی ناراضگی یا فارمولے کو سادھنے کی گنجائش بنی رہے۔ اس میں ایک وزیر بی جے پی کوٹہ سے بننا تھا اور ایک جے جے پی کوٹہ سے۔ تبھی سے ہر مہینے یا دو مہینے میں کابینہ توسیع کی بحث زور پکڑ لیتی تھی۔ گزشتہ ایک مہینے سے تو کئی تاریخیں بھی سامنے آ چکی تھیں۔ آخر 27 دسمبر کو ساری قیاس آرائیوں کو ختم کرتے ہوئے وہ تاریخ آئی کہ 28 دسمبر کو شام چار بجے حلف برداری تقریب ہریانہ راج بھون میں منعقد ہوگی۔


تاریخ تو طے ہو گئی، لیکن جو ہوا شاید اسی سے بچنے کے لیے دو سال سے زیادہ وقت تک اسے ملتوی کیا گیا۔ گھڑی کی سوئی چار پر پہنچنے کے ساتھ ہی میڈیا کی نگاہیں ان معززین کو تلاش رہی تھیں جنھیں وزارتی عہدہ سے نوازا جانا تھا یا وزیر نہ بنائے جانے یا محکمہ چھینے جانے سے ناراضگی کے سبب جن کے نہ آنے کا اندیشہ تھا۔ طے وقت سے ایک ایک منٹ گھڑی کی سوئی آگے بڑھنے کے ساتھ ہی قیاس آرائیاں بڑھتی چلی گئیں۔ آخر میں سوئی انل وِج پر جا کر اٹک گئی۔ حلف برداری تقریب چار بجے کی جگہ 4.20 بجے شروع ہو پائی اور چند منٹ میں ختم ہو گئی۔ لیکن انل وِج نہیں آئے۔ بس پروگرام کی یہی بریکنگ نیوز تھی اور چاروں طرف اسی کی بحث شروع ہو گئی۔

انل وِج حکومت کے وہ وزیر ہیں جو وزارت داخلہ کے ساتھ ہی صحت اور مقامی بلدیہ جیسے محکمے بھی سنبھالتے ہیں۔ بی جے پی-جے جے پی حکومت میں بے شک وزیر اعلیٰ کے پاس قریب دو درجن سے زیادہ اور نائب وزیر اعلیٰ کے پاس درجن بھر وزارت ہیں، لیکن طاقتور وزارتوں کے نظریے سے انل وِج کو حکومت میں نمبر دو مانا جاتا ہے۔ ریاست میں بی جے پی کی جیت کے بعد خود کو وزیر اعلیٰ کا فطری دعویدار ماننے والے چھ بار کے رکن اسمبلی انل وِج اور وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کے درمیان ٹکراؤ کوئی نیا نہیں ہے۔ حکومت تشکیل کے ساتھ ہی شروع ہوا یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔


انل وِج کی طرف سے حلف برداری تقریب کے کیے گئے بائیکاٹ سے ایک بار پھر یہ ثابت ہو گیا ہے کہ اس حکومت میں اقتدار کے دو مرکز ہیں۔ ایک مرکز ہریانہ سکریٹریٹ کی پانچویں منزل پر ہے جہاں وزیر اعلیٰ بیٹھتے ہیں اور دوسرا مرکز سکریٹریٹ کی آٹھویں منزل پر ہے جہاں انل وِج بیٹھتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ حکومت نے اس کو ملتوی کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بھروسہ مند ذرائع کے مطابق حلف برداری تقریب سے پہلے تقریباً 3.45 بجے وزیر اعلیٰ رہائش پر انل وِج کی ان کے ساتھ میٹنگ ہوئی، لیکن وزیر اعلیٰ کامیاب نہیں ہو پائے۔ انل وِج کی اس بغاوت کی وجہ ان کے محکمہ کم کرنے کی کوشش کو مانا جا رہا ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ بی جے پی میں ہی یہ حالت ہے۔ حلف برداری تقریب سے قبل دشینت چوٹالہ کی رہائش پر ہوئی جے جے پی اراکین اسمبلی کی میٹنگ میں بھی دو اراکین اسمبلی نہیں پہنچے۔ 10 میں سے 8 اراکین اسمبلی کی ہی موجودگی دیکھنے کو ملی۔ ظاہر ہے کہ بی جے پی-جے جے پی اتحادی حکومت میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔


بہرحال، دو وزرا کی حلف برداری تقریب کے بعد کھٹر حکومت میں وزرا کی تعداد اب 14 ہو گئی ہے۔ 90 رکنی اسمبلی میں زیادہ سے زیادہ 14 اراکین ہی وزیر بنائے جا سکتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے حلف برداری تقریب کے بعد کہہ بھی دیا کہ یہ حکومت کی پہلی اور آخری کابینہ توسیع ہے۔ اس میں بی جے پی کوٹہ سے کمل گپتا کو وزیر بنایا گیا ہے جو ویشیہ سماج سے ہیں۔ بی جے پی میں 8 اراکین اسمبلی ویشیہ سماج سے ہیں۔ بی جے پی کے کوٹہ سے وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ انل وِج پنجابی ہیں۔ کملیش ڈھانڈا رنجیت سنگھ اور جے پی دلال جاٹ سماج سے ہیں جب کہ بنواری لال دلت وزیر ہیں۔ برہمن سماج سے واحد وزیر مول چند شرما ہیں اور پسماندہ طبقہ سے او پی یادو و کنور لال گوجر وزیر ہیں، جب کہ وزیر کھیل سندیپ سنگھ سکھ طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔

دوسری طرف جے جے پی کے دس اراکین اسمبلی میں چار دلت، ایک برہمن اور پانچ جاٹ رکن اسمبلی ہیں۔ دلت کوٹہ سے انوپ دھانک وزیر ہیں، جب کہ برہمن رکن اسمبلی رام کمار گوتم ناراض ہیں۔ وزیر بنائے گئے دیبنیدر ببلی جاٹ ہیں۔ ہریانہ کی 90 اسمبلی سیٹوں میں سے بی جے پی کے پاس 40، جے جے پی کے پاس 10، کانگریس کے پاس 31، آئی این ایل ڈی کے پاس 1، ایچ ایل پی کے پس 1، اور 7 آزاد رکن اسمبلی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔