ہریانہ میں اب مہنگی بجلی کی مار، پرائیویٹ کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے عوام پر بوجھ ڈال رہی کھٹر حکومت: ہڈا

بھوپیندر ہڈا نے کہا کہ کانگریس کی مدت کار میں اڈانی گروپ کے ساتھ ہوئے بجلی خرید سمجھوتہ کے تحت 2.94 پیسے فی یونٹ شرح سے 25 سال تک ہریانہ کو بجلی ملنی تھی۔

بھوپندر ہڈا
بھوپندر ہڈا
user

دھیریندر اوستھی

اڈانی گروپ کے ساتھ ہریانہ کو بجلی دینے کا کانگریس حکومت میں ہوا معاہدہ کھٹر حکومت کے بدل دینے کے بعد اب اس کا اثر نظر آنا شروع ہو گیا ہے۔ نیا معاہدہ (ری-نیگوشیشن) ہوتے وقت اس کا عوام پر کوئی بوجھ نہ پڑنے کی بات کہنے والے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کی حکومت نے بجلی کی شرح بڑھا کر مہنگائی سے بے حال عوام پر ایک اور حملہ کرنے کا کام کیا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ حزب مخالف لیڈر بھوپیندر سنگھ ہڈا نے چنڈی گڑھ میں کہا کہ ایک طرف راجستھان میں کانگریس حکومت 500 روپے میں گیس سلنڈر دے کر عوام کو مہنگائی سے راحت دے رہی ہے، وہیں دوسری طرف بی جے پی-جے جے پی حکومت بجلی کی شرحوں میں 52 پیسے (47+5 پیسے) کا اضافہ کر کے غریب اور متوسط طبقہ پر اضافی بوجھ ڈال رہی ہے۔ مثال کے طور پر 600 یونٹ تک خرچ کرنے والے عام کنبہ کو اب ہر ماہ 300 روپے سے زیادہ اضافی ادائیگی کرنی پڑے گی۔

ہڈا نے کہا کہ پرائیویٹ کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے عوام پر یہ بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔ کیونکہ کانگریس کی مدت کار میں اڈانی گروپ کے ساتھ ہوئے بجلی خرید معاہدے کے تحت 2.94 پیسے فی یونٹ کی شرح سے 25 سال تک ہریانہ کو بجلی ملنی تھی۔ لیکن گزشتہ گرمی سیزن میں کمپنی نے بجلی دینے سے منع کر دیا۔ پرائیویٹ کمپنی پر قانونی کارروائی کرنے کی جگہ حکومت نے باہر سے 11-10 روپے کی شرح سے مہنگی بجلی خریدی۔


سابق وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ پرائیویٹ کمپنیوں پر انحصار ختم کرنے کے لیے کانگریس مدت کار کے دوران ریاست میں 4 پاور پلانٹ (1. کھیدڑ، حصار، 2. دین بندھو چھوٹو رام تھرمل پاور، یمنا نگر، 3. اندرا گاندھی سپر تھرمل پاور، جھجر، 4. مہاتما گاندھی سپر تھرمل پاور، جھجر) قائم کیے گئے۔ ساتھ ہی پانی پت تھرمل پاور میں 250 میگاواٹ کی اسٹیج 6 یونٹ لگائی گئی۔ ساتھ ہی فتح آباد کے گاؤں گورکھ پور میں 2800 میگاواٹ کے پہلے نیوکلیائی پاور پلانٹ کا قیام ہوا۔ اس کے علاوہ یمنا نگر میں 660 یونٹ کے مزید ایک پاور پلانٹ کو منظوری دینے کا کام بھی کانگریس حکومت کے دوران ہوا تھا۔ لیکن گزشتہ ساڑھے آٹھ سال سے بی جے پی حکومت نے اس پروجیکٹ کو لٹکائے رکھا۔ نیا کوئی پاور پلانٹ لگانے کی جگہ موجودہ حکومت نے پہلے سے قائم پلانٹس کو بھی ٹھپ کر دیا اور پرائیویٹ کمپنیوں پر انحصار بڑھا دیا۔

کانگریس حکومت نے 10 سال میں لگاتار بجلی کی شرح کم کی اور کسانوں کو ملک میں سب سے سستی 10 پیسے فی یونٹ کی شرح سے بجلی دی۔ اتنا ہی نہیں، کانگریس مدت کار میں ہی 1600 کروڑ روپے کے بجلی بل معاف کرنے کا تاریخی قدم اٹھایا گیا۔ لیکن بی جے پی اور اتحادی حکومت کے دوران لگاتار شرح میں اضافہ، میٹر خرید میں گھوٹالہ، بار بار میٹر بدل کر اور پرائیویٹ کمپنیوں سے مہنگی بجلی خرید کر عوام کو لوٹنے کا کام ہوا۔


ہڈا نے اس کے ساتھ ہی منڈیوں میں گیہوں کی خرید نہیں ہونے کو لے کر بھی ناراضگی ظاہر کی۔ انھوں نے بتایا کہ ریاست کی منڈیوں کا دورہ کر کے انھوں نے کسان، مزدور اور آڑھتیوں سے بات کی۔ خرید اور اٹھان نہیں ہونے کے سبب سبھی پریشان ہیں۔ حکومت کے اسی ڈھلمل رویے کے سبب کسانوں کو سرسوں کا ایم ایس پی بھی نہیں مل پایا تھا۔ کسانوں کو ایم ایس پی سے 1000-500 روپے فی کوئنٹل کم شرح پر اپنی فصل فروخت کرنی پڑی تھی۔ اب یہی حال گیہوں کا ہو رہا ہے۔ کئی جگہ منڈیوں میں خرید کا کام اور ’میری فصل، میرا بیورا‘ پورٹل بند پڑا ہے۔ ہر فصلی سیزن میں ضرورت کے وقت پورٹل کام کرنا بند کر دیتا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ موسم کی مار کو دیکھتے ہوئے کسانوں کو پھوٹے دانے، چھوٹے دانے، نمی اور لسٹر لاس کی لمٹ میں مزید چھوٹ دی جائے۔ لیکن حکومت نے چھوٹ کے ساتھ گیہوں میں زبردست ویلیو کٹ لگانے کے حکم دے دیئے۔ پہلے سے بھاری خسارہ برداشت کر رہے کسانوں کے ساتھ یہ زیادتی ہے۔ ہریانہ حکومت کو ویلیو کٹ خود برداشت کرنا چاہیے اور کسانوں کو ان کی فصل کی پوری قیمت ملنی چاہیے۔ انھوں نے بتایا کہ گزشتہ دنوں ہوئی بارش کے سبب کسانوں نے 17 لاکھ ایکڑ سے زیادہ فصل خراب ہونے کی شکایت کی ہے، لیکن بمشکل 10 فیصد فصل کی ہی گرداوری ہو پائی ہے۔ گیہوں کی کٹائی شروع ہو چکی ہے، ایسے میں کب تک گرداوری ہوگی اور کب کسانوں کو معاوضہ ملے گا۔

ہڈا نے کسانوں کے نقصان کو دیکھتے ہوئے 25000 سے لے کر 50000 روپے فی ایکڑ معاوضہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے کہا ہے کہ کسانوں کو فی کوئنٹل 500 روپے بونس دیا جائے۔ پی ایم فصل بیمہ منصوبہ کا فائدہ کسانوں کو بھی ملنا چاہیے۔ کیونکہ اب تک یہ منصوبہ محض کمپنیوں کے لیے منفعت بخش ثابت ہو رہا ہے۔ 5 سال کے اندر کمپنیوں کو 40 ہزار کروڑ کا فائدہ ہو چکا ہے۔ لیکن کسانوں کو ہمیشہ خسارہ ہی اٹھانا پڑتا ہے۔


حزب مخالف لیڈر نے کہا کہ کسانوں کے ساتھ آڑھتی بھی حکومت کی خراب پالیسیوں سے ناراض ہیں۔ ان کی آڑھت کو بھی 53 سے گھٹا کر 46 روپے فی کوئنٹل کر دیا گیا ہے۔ کورونا بحران میں تاخیر سے ادائیگی پر سود کے ساتھ ادائیگی کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اب تک آڑھتیوں کے کروڑوں روپے کی ادائیگی نہیں ہوئی ہے۔ اسی طرح حکومت نے تاخیر سے ادائیگی پر کسانوں کو سود دینے کا وعدہ کیا تھا، اس کی بھی حکومت نے ادائیگی نہیں کی۔

ریاست کی معاشی حالت پر تبصرہ کرتے ہوئے ہڈا نے بتایا کہ حکومت عوام کو گمراہ کرنے کے لیے قرض اور جی ایس ڈی پی کے غلط اعداد و شمار پیش کر رہی ہے۔ اپنے ایک انٹرویو میں وزیر اعلیٰ نے دعویٰ کیا کہ 15-2014 میں ہریانہ کی جی ایس ڈی پی محض 3 لاکھ کروڑ تھی، جبکہ سچائی یہ ہے کہ اس وقت جی ایس ڈی پی 448537 کروڑ تھی۔ بی جے پی کی مدت کار کے دوران جی ایس ڈی پی محض 2.2 گنا بڑھی ہے، جبکہ قرض 4 سے 5 گنا بڑھ گیا ہے۔ آج ریاست پر بے تحاشہ بوجھ ہو گیا ہے اور مجموعی طور پر یہ 4 لاکھ کروڑ سے زیادہ کا قرض ہے۔


بھوپیندر سنگھ ہڈا نے سی اے جی کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آبکاری محکمہ میں خوب بے ضابطگیاں ہو رہی ہیں۔ حکومت کے ذریعہ ہر بار آمدنی کے بڑے ہدف رکھے جاتے ہیں، جبکہ ہمیشہ اس سے کم آمدنی ہوتی ہے۔ اتنا ہی نہیں، حکومت کے پاس ڈسٹلری سے نکلنے والی شراب، شراب کی پیداوار، اس کی لاگت اور اس کے معیار کا بھی مکمل ریکارڈ اور مانیٹرنگ نہیں ہے۔ سی اے جی کی یہ رپورٹ بڑی معاشی بے ضابطگی کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ اس لیے ہائی کورٹ کی نگرانی والی کمیٹی سے پورے معاملے کی جانچ کروائی جانی چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔