ہریانہ: ’وزیر اعلیٰ کا بدلا جانا ہمارے لیے بم دھماکہ کی طرح تھا‘، انل وج کا اپنی ہی پارٹی پر حملہ

انل وج نے واضح لفظوں میں کہا کہ وزیر اعلیٰ سمیت پوری کابینہ کے استعفیٰ دینے کے بعد ان سے کسی نے کوئی رابطہ نہیں کیا، انھیں اس بات کی بھی کوئی جانکاری نہیں تھی کہ ریاست کا وزیر اعلیٰ بدلا جا رہا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>سابق وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر (دائیں) اور انل وج (بائیں)، تصویر سوشل میڈیا</p></div>

سابق وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر (دائیں) اور انل وج (بائیں)، تصویر سوشل میڈیا

user

قومی آوازبیورو

ہریانہ کے سابق وزیر داخلہ و صحت انل وِج نے اپنی ہی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انھوں نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہریانہ میں وزیر اعلیٰ بدلا جانا ہمارے لیے بم دھماکہ کی طرح تھا۔ انھیں پہلے سے اس بات کی کوئی جانکاری نہیں تھی کہ ریاست میں وزیر اعلیٰ بدلا جا رہا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کو بھی وِج نے نہیں بخشا اور کہا کہ ان کی آنکھیں کہیں ہوتی ہیں اور نشانہ کہیں ہوتا ہے۔

دراصل چنڈی گڑھ میں ہونے کے باوجود حکومت کی دوسری حلف برداری تقریب تک میں وِج کو مدعو نہیں کیا گیا۔ انبالہ شہر سے بی جے پی رکن اسمبلی اسیم گویل کو کابینہ میں لینے کے ساتھ ہی یہ بھی صاف ہو گیا کہ وِج کا پتّہ حکومت سے پوری طرح کٹ گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی نئی حکومت میں سابقہ حکومت کے تین بڑے چہرے ندارد ہیں۔ گزشتہ حکومت کے مکھیا رہے منوہر لال، پروٹوکول کے حساب سے نمبر دو رہے نائب وزیر اعلیٰ دُشینت چوٹالہ اور تیسرے نمبر پر مانے جانے والے انل وِج۔


گزشتہ کئی دن سے ہوا میں تیر رہی ہریانہ کی نئی نویلی حکومت کی کابینہ توسیع کی بات آج (19 مارچ) انجام تک پہنچ گئی، لیکن کئی گہرے سوال چھوڑ گئی۔ یہ بھی صاف ہو گیا کہ بی جے پی میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ شام کو تقریباً پانچ بجے چنڈی گڑھ واقع راج بھون میں گورنر بنڈارو دتاترے نے ایک کابینہ اور 7 ریاستی وزراء کو عہدہ و رازداری کا حلف دلایا۔ اس کے ساتھ ہی ہریانہ میں حکومت تو پوری شکل میں سامنے آ گئی، لیکن سابق وزیر داخلہ و صحت انل وِج کے حملوں نے اس نئی نویلی حکومت کی خوب فضیحت کرائی۔ انل وِج نے نہ تو سابق وزیر اعلیٰ کو چھوڑا اور نہ ہی نئے وزیر اعلیٰ کو۔ انل وِج نے پہلے تو یہ پوری طرح واضح کر دیا کہ کابینہ توسیع کی بھی کوئی جانکاری انھیں نہیں دی گئی۔

اسپیکر کی دعوت پر اسمبلی کمیٹیوں کا رکن بننے کے لیے دوپہر میں انل وِج چنڈی گڑھ آئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ انھیں کرنال کے اسندھ میں آج لوک سبھا انتخابی تشہیر کا آغاز کرنے آ رہے بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا کے آنے کی بھی کوئی جانکاری نہیں ہے۔ انھیں منانے کی چل رہی کوششوں کی بھی انھوں نے پوری طرح تردید کی۔ انھوں نے کہا کہ کسی نے ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا ہے۔ کرنال کے گھرونڈا گئے وزیر اعلیٰ نائب سنگھ سینی کے ان سے ملاقات کی بات کی بھی انھوں نے تردید کر دی۔ انل وِج نے کہا کہ ان سے کوئی ملنے نہیں آیا۔ میں تو انبالہ میں گھر پر ہی تھا۔ اگر ملنے آتے تو ہم ان کو چائے پلاتے۔


اس سے قبل آج صبح یہ بات سامنے آ رہی تھی کہ وزیر اعلیٰ انل وِج کو منانے کے لیے انبالہ کینٹ واقع ان کے گھر جائیں گے۔ اس سوال پر کہ وزیر اعلیٰ کہہ رہے تے کہ وہ ہمارے سینئر لیڈر ہیں، ان کا پہلے بھی ہمیں آشیرواد ملا ہے، اس تعلق سے انل وِج نے کہا کہ ان کا شکریہ اگر وہ ایسا مانتے ہیں۔ یہ وِج کا موجودہ وزیر اعلیٰ نائب سنگھ سینی پر بڑا طنز تصور کیا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ سینئر تو میں ہوں ہی، حکومت میں میرے جتنا کوئی سینئر نہیں ہے۔

اس سوال پر کہ سابق وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر نے کہا ہے کہ انل وِج کا یہ رویہ ہے، وہ بہت جلدی ناراض ہو جاتے ہیں اور بہت جلدی مان بھی جاتے ہیں۔ انھیں منانے کے لیے وزیر اعلیٰ نائب سینی ان کے گھر جائیں گے، انھیں منایا جائے گا۔ ناراضگی کو لے کر بھی انھوں نے واضح کیا ہے کہ ہاں، انل وِج ناراض تھے۔ اس پر انل وِج نے کہا کہ پتہ نہیں منوہر لال جی کس بات کو کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں۔ ان کی آنکھیں کہیں ہوتی ہیں اور نشانہ کہیں ہوتا ہے۔ یہ منوہر لال کھٹر پر بھی انل وِج کا زبردست حملہ تھا۔ وِج نے اس سوال پر کہ آپ نے چنڈی گڑھ آنا بھی کم کر دیا ہے؟ انل وِج نے کہا کہ ’’چنڈی گڑھ کس لیے آئیں گے۔ اب جب اسمبلی کمیٹیوں کا ممبر بنا دیا جائے گا تو منگل اور بدھ یعنی ہفتہ میں دو دن ہونے والی میٹنگوں میں آیا کریں گے۔‘‘


وِج نے یہ بھی واضح کیا کہ وزیر اعلیٰ سمیت پوری کابینہ کے استعفیٰ دینے کے بعد سے ان سے کسی نے کسی بھی طرح کا کوئی رابطہ نہیں کیا۔ یہ بھی صاف کر دیا کہ ہمیں اس بات کی کوئی جانکاری نہیں تھی کہ ہماری ریاست کا وزیر اعلیٰ بدلا جا رہا ہے۔ یہ ہمارے لیے بم دھماکہ کی طرح تھا کہ وزیر اعلیٰ بدلا جا رہا ہے۔ انل وِج کی آج کی بے باک بیان بازی سے صاف ہو گیا کہ نائب سینی کا نام وزیر اعلیٰ کے طور پر اعلان کرنے کے لیے چنڈی گڑھ میں ہوئی قانون ساز پارٹی کی میٹنگ چھوڑ کر درمیان میں ہی جانے کے بعد آج بھی ان کی ناراضگی قائم ہے۔

7 آزاد اراکین اسمبلی کی حمایت سے بنائی گئی حکومت کی کابینہ توسیع میں ایک بھی آزاد رکن اسمبلی کو شامل نہ کرنے پر بھی سوال اٹھے ہیں۔ وہیں جونیئر خاتون کوچ جنسی استحصال کیس میں پھنسے سندیپ سنگھ کی کابینہ سے چھٹی کر دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہریانہ میں 13 وزیر اور وزیر اعلیٰ کو ملا کر تعداد 14 ہو گئی ہے۔ 90 رکنی اسمبلی میں 15 فیصد کے حساب سے زیادہ سے زیادہ اتنے ہی وزیر بنائے جا سکتے ہیں۔ یعنی انبالہ کینٹ سے رکن اسمبلی انل وِج کا پتّہ اب پوری طرح کٹ چکا ہے۔


اکثر تنازعات میں رہنے والے انبالہ شہر سے رکن اسمبلی اسیم گویل کو وزیر بنا کر بی جے پی نے اس کا ازالہ کیا ہے۔ کابینہ کی اس توسیع نے سبھی کو حیران کیا ہے۔ آج حلف لینے والے 8 چہروں میں سے 7 پہلی مرتبہ وزیر بنے ہیں۔ خاتون کوٹہ سے کملیش ڈھانڈا کو ڈراپ کیا گیا ہے، جنھوں نے اپنی پوری مدت کار میں ایک بھی پریس کانفرنس نہیں کیا۔ ان کی جگہ سیما تریکھا کو وزیر بنایا گیا ہے۔ مہیپال ڈھانڈا پہلی بار وزیر بنے ہیں، جنھیں مزید ایک جاٹ چہرہ کی شکل میں شامل کر جاٹوں کی ناراضگی دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اہیروال سے مرکزی وزیر راؤ اندرجیت کے خاص اوم پرکاش یادو کو ڈراپ کر ان کے سخت مخالف ابھے یادو کو شامل کر انھیں بھی آئینہ دکھایا گیا ہے۔ تھانیسر سے رکن اسمبلی سبھاش سدھا کو پہلی بار وزیر بنا کر دھرم نگری کو نمائندگی دی گئی ہے۔ بشمبر والمیکی کو وزیر بنا کر دلتوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ گروگرام کے سوہنا سے رکن اسمبلی سنجے سنگھ کو وزیر بنا کر میوات تشدد کے دوران دیے گئے ان کے بیان کے لیے شاید انھیں انعام دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال 31 جولائی کو نوح میں تشدد بھڑکنے کے بعد سنجے سنگھ نے کہا تھا کہ میں پہلے ہندو ہوں اور پھر رکن اسمبلی ہوں۔ اپنے لوگوں کی حفاظت کرنا میری ذمہ داری ہے۔

آج کابینہ وزیر کے طور پر حلف لینے والے واحد رکن اسمبلی کمل گپتا ہیں، جن کو لے کر کافی تذبذب والی حالت تھی۔ بطور وزیر کمل گپتا کی گزشتہ مدت کار پر سنگین سوالات اٹھے ہیں۔ پراپرٹی آئی ڈی گھوٹالہ ریاست میں کافی سرخیاں بٹور چکا ہے، جس میں کئی لاکھ شکایتیں آئی تھیں اور آخر میں پراپرٹی آئی ڈی کا سروے کرنے والی ایجنسی کو بلیک لسٹ کرنا پڑا تھا۔ اس سے پہلے کنور پال گوجر، مول چند شرما، جے پی دلال، بنواری لال اور آزاد رکن اسمبلی چودھری رنجیت سنگھ چوٹالہ کابینہ وزیر کے طور پر حلف لے چکے ہیں۔ اس طرح کھٹر حکومت کے 4 وزراء کو اس حکومت میں جگہ نہیں ملی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔