ہندوستان کبھی ’نازی جرمن‘ نہیں بن سکتا ہے: ہرش مندر

جب جرمن میں مذہب او ر نسل کی بنیاد پر یہودی کے خلاف کارروائی ہورہی تھی اس وقت جرمن کی اکثریت آبادی خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی

سوشل میڈیا، فائل تصویر
سوشل میڈیا، فائل تصویر
user

یو این آئی

شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کے خلاف احتجاج میں جس طریقے سے تمام طبقات حصہ لے ر ہے ہیں اس سے یہ ثابت ہوگئی ہے کہ ہندوستان کبھی بھی نازی جرمن نہیں بن سکتا ہے۔ مشہور سماجی کارکن اور سابق آئی اے ایس آفیسر ہرش مندر نے کہا ہے کہ اگر شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج نہیں ہو تا تو اس کے بعد ملک کے آئین پر ہی حملہ کیا جاتا۔

خیال رہے کہ ہرش مندر کی قیادت میں آج جمعہ کی نماز کے بعد اسٹیٹس مین ہاؤس سے گاندھی مورتی تک ملین مارچ نکالا جائے گا جس میں سماج کے تمام طبقات کی شرکت کا امکان ہے۔ مندر نے کہا کہ این پی آر کسی بھی صورت میں این آر سی سے کم نہیں ہے۔


کلکتہ پریس کلب میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے ہرش مندر نے کہا کہ گزشتہ پانچ سالوں سے ہندوستان کے آئین کوکمزور کرنے کیلئے اقدامات کیے جارہے تھے۔اس کے خلاف احتجاج نہیں ہورہے تھے اور اب شہریت ترمیمی ایکٹ کو پارلیمنٹ سے پاس کراکے ملک کے دستوری ڈھانچہ کو منہدم کرنے کی کوشش کی گئی اور اس کے بعد ملک کے آئین کا ہی نمبر تھا مگر اس کے خلاف حکومت کے توقع کے خلاف ملک گیر سطح پر احتجاج ہونے لگا جس میں تمام سوسائٹی اور طبقات کے لوگ حصہ لے رہے ہیں۔

ہرش مندر نے کہا کہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج نے ایک امید جگادی ہے کہ ہندوستان کبھی بھی نازی جرمن نہیں بن سکتا ہے کیوں کہ جب جرمن میں مذہب او ر نسل کی بنیاد پر یہودی کے خلاف کارروائی ہورہی تھی اس وقت جرمن کی اکثریت آبادی خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔اس سے حوصلہ پاکر ہٹلر نے بڑے پیمانے پر یہودیوں کا قتل عام کیا مگر ہندوستان میں بھی نازی ذہنیت کے افراد نے بھی مذہب اور نسل کی بنیاد پر مسلمانوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تو یہاں اکثریتی طبقہ خاموش نہیں رہا اور آج ملک بھر میں اس قانون کے خلاف احتجاج ہورہے ہیں۔دوسرے کہ ہٹلرکے اقدامات کے خلاف وہاں کی ریاستوں نے بھی آواز نہیں اٹھائی جب کہ ہندوستان میں غیر بی جے پی ریاستیں دستور کے منافی اقدامات کی مخالفت کررہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ کیرالہ اور بنگال نے جہاں شہریت ترمیمی ایکٹ کو نافذ نہیں کرنے کا اعلان کیا ہے وہیں این آر پی کو بھی نافذ نہیں کرنے کا اعلان کررکھا ہے۔یہ خوش آئند بات ہے۔مگرضرورت اس بات کی ہے کہ دوسری ریاست بھی این آر پی کی مخالفت کریں۔


ہرش مندر نے کہا کہ آسام میں این آر سی کے نتیجے میں جوکچھ سامنے آیا ہے وہ ہمارے سامنے ہے مگر این آر پی بھی کسی بھی صورت میں کم خطرناک نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1987تک ہندوستانی ہونے کیلئے صرف یہاں پیدا ہونا ضروری تھا مگربعد میں یہ کہا گیا کہ والدین کا ہندوستان ہونا ضروری ہے۔مگر 2003میں اٹل بہاری واجپئی حکومت نے پہلی مرتبہ اس میں ترمیم کرتے ہوئے کہا کہ اگر والدین میں سے کوئی ایک غیرقانونی شہری ثابت ہوا تو شہریت منسوخ کردی جائے گی۔یہ انتہائی خطرناک ترمیم تھی۔اسی وقت این آر پی کی سفارش کی گئی تھی۔کانگریس حکومت کے دور میں بھی این آر پی ہوا مگر اس میں والدین کے تاریخ پیدائش سے متعلق نہیں پوچھا نہیں گیا تھا۔ہندوستان میں کروڑ افراد ایسے ہیں جنہیں اپنے والدین کی تاریخ کے پیدائش سے متعلق کچھ امید نہیں ہے۔

سابق آئی اے ایس آفیسر جواہر سرکار نے شہریت ترمیمی ایکٹ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کے 6سابق سینئر آئی اے ایس آفیسر نے شہریت ترمیمی ایکٹ کی مخالفت کرتے ہوئے حکومت ہندسے مطالبہ کیا ہے کہ 2003کی ترمیم کو واپس لیا جائے۔فارن ٹربیونل ایکٹ کو ختم کیا جائے اور حراستی کیمپ کو بند کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ این آر پی اس لیے خطرنا ک ہے کہ اس میں کسی کو بھی مشتبہ شہری قرار دیا جاسکتا ہے اور حکومت کارروائی کرسکتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔