’ہلدی رام‘ نے کی ’پھلاہاری مکچر‘ کے پیکٹ پر اردو لکھنے کی خطا! سوشل میڈیا پر نفرت کا بازار گرم

پرینکا چترویدی نے وزیر اطلاعات و نشریات سے سوال کیا ہے کہ ’’کیا یہ ٹھیک ہے؟ کیا چینل کو ٹی آر پی کے لیے (ریسٹورینٹ) ملازمین کو پریشان کرنا شروع کر دینا چاہیے، اور زیادہ نفرت پیدا کرنی چاہیے؟‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

تنویر

ہندوستان کی مشہور ’ہلدی رام‘ کمپنی بدھ کی صبح سے ہی سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر رہی ہے۔ ٹرینڈ کرنے کی وجہ حیرت انگیز ہے۔ معاملہ کچھ یوں ہے کہ ہلدی رام نے ’پھلاہاری مکچر‘ کے پیکٹ پر ڈسکرپشن (تفصیل) عربی زبان (حالانکہ اسے اردو زبان بتایا جا رہا ہے) میں لکھی ہے۔ پھلاہاری مکچر کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس کو بنانے میں کسی جانور کا تیل استعمال نہیں ہوتا، یعنی صرف پھلوں کا ہی استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے نوراتری یا دیگر ورَت (روزہ) کے موقع پر ہندو طبقہ اس کا خوب استعمال کرتا ہے۔ اس پروڈکٹ پر اردو زبان میں ڈسکرپشن لکھے جانے پر کئی لوگ اعتراض ظاہر کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ جب یہ ہندوؤں کے ورَت کو دیکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے تو پھر ڈسکرپشن ہندی یا انگریزی میں ہونا چاہیے۔

اس تنازعہ کی شروعات اشتعال انگیز اور نفرت کو فروغ دینے والی خبروں کے لیے مشہور ’سدرشن ٹی وی‘ کی ایک خاتون رپورٹر نے کی۔ رپورٹر ایک ریسٹورینٹ پر پہنچتی ہے جہاں اسٹاف سے اردو میں ڈسکرپشن لکھے جانے پر وضاحت طلب کرتی ہے۔ خاتون رپورٹر لگاتار یہ پوچھتی ہے کہ پھلاہاری مکچر میں ایسا کیا ہے جسے چھپانے کے لیے ڈسکرپشن اردو میں لکھا گیا ہے؟ کیا اس کو بنانے میں جانور کے تیل کا استعمال کیا گیا ہے؟ ریسٹورینٹ کی خاتون اسٹاف اس طرح کے سوالوں پر ناراض ہو جاتی ہے اور کہتی ہے کہ وہ کسی بھی سوال کا جواب نہیں دے گی کیونکہ وہ ’انٹرٹینمنٹ‘ کا ذریعہ نہیں بننا چاہتی۔ وہ یہ ضرور کہتی ہے کہ ریسٹورینٹ میں ہندی اور انگریزی ڈسکرپشن والے پیکٹ بھی ہیں آپ کو اردو نہیں آتی تو ہندی-انگریزی والا پیکٹ خریدیں۔


اس پورے واقعہ کی ویڈیو ٹوئٹر پر کئی لوگوں نے شیئر کی ہے اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ ایک بڑا ہندو طبقہ ’سدرشن ٹی وی‘ کے رپورٹر کو درست ٹھہراتے ہوئے ’ہلدی رام‘ کا بائیکاٹ کرنے پر زور دے رہا ہے۔ اس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ’سدرشن ٹی وی‘ جو نفرت والا ماحول پیدا کرنا چاہتا ہے، اس میں وہ کامیاب ہو گیا ہے۔ حالانکہ اُردو کے خلاف اس نفرت پر کئی لوگوں نے اعتراض بھی ظاہر کیا ہے۔ راجیہ سبھا رکن اور شیوسینا لیڈر پرینکا چترویدی نے اس ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے وزیر اطلاعات و نشریات انوراگ ٹھاکر سے سوال کیا ہے کہ ’’کیا یہ ٹھیک ہے؟ کیا چینل کو ٹی آر پی کے لیے (ریسٹورینٹ) ملازمین کو پریشان کرنا شروع کر دینا چاہیے، اور زیادہ سے زیادہ نفرت پیدا کرنی چاہیے؟ کیا اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہونی چاہیے؟‘‘

سوشل میڈیا پر کئی لوگ ایسے بھی ہیں جنھوں نے اُردو کو صرف مسلمانوں کی زبان قرار دیئے جانے پر اعتراض کر رہے ہیں۔ کچھ لوگوں نے تو ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ اگر اُردو سے اتنی نفرت ہے تو انھیں ہندوستانی کرنسی کا بھی بائیکاٹ کرنا چاہیے جس میں کئی زبانوں کے ساتھ اُردو بھی لکھی ہوئی ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ ریلوے اسٹیشنوں پر اُردو زبان میں اسٹیشن کا نام لکھا ہوتا ہے، تو کیا ’سدرشن ٹی وی‘ والے ریلوے سے جا کر سوال پوچھیں گے؟


بہرحال، ہندوستان میں ہندو-مسلم منافرت کو بڑھانے والی باتیں لگاتار سامنے آ رہی ہیں۔ حجاب تنازعہ، لاؤڈاسپیکر سے اذان پر پابندی اور حلال گوشت تنازعہ ایسے تازہ ترین معاملے ہیں جن کے ذریعہ ہندو اور مسلم طبقہ کے درمیان نفرت کی دیوار پیدا کی جا رہی ہے۔ ہلدی رام کے پیکٹ پر اُردو میں ڈسکرپشن لکھے جانے پر اعتراض بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی معلوم پڑ رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔