حج کمیٹی کی جلد از جلد تشکیل نو کی جائے: حافظ نوشاد اعظمی

حافظ نوشاد نے سپریم کورٹ کے فیصلے 2012 کے تعلق سے یہ بھی لکھا کہ ایئرانڈیا کو دی جانے والی حج کرایہ کی سبسڈی دس سال میں دھیرے دھیرے ختم کی جائے، مگر کس قانون کے تحت 2018ء میں یہ سبسڈی بند کردی گئی

تصویر بشکریہ hajcommittee.gov.in
تصویر بشکریہ hajcommittee.gov.in
user

یو این آئی

لکھنؤ: مرکزی حج کمیٹی کے سابق ممبر اور 1998ء سے عازمین حج کی سہولیت کے لیے جدوجہد کرنے والے حافظ نوشاد احمد اعظمی حج کمیٹی کی تشکیل نو نہ کرنے کی وجہ سے وزیر اقلیتی امور سے استعفی کا مطالبہ کیا ہے اور دعوی کیا ہے کہ یہ حج ایکٹ 2002ء کی خلاف ورزی ہے۔ یہ مطالبہ انہوں نے یہاں جاری ایک ریلیز میں کیا ہے۔

انہوں نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے مرکزی اقلیتی امور (جس میں حج بھی شامل ہے) مختار عباس نقوی سے حج کمیٹی کی تشکیل نہ کرنے کی وجہ سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے 5 جنوری2021ء کو ایک تفصیلی خط مرکزی وزیر اور متعلقہ افسران اورحج کمیٹی کو میل کے ذریعہ بھیجا تھا، لیکن اس کا اب تک کوئی جواب نہیں ملا۔ انھوں نے اس خط میں مرکزی وزیر سے بہت سے سوالات کیے تھے جس میں خصوصی طور سے چھ مہینے سے زائد حج کمیٹی آف انڈیا کی تشکیل نہیں ہوئی جو حج ایکٹ2002ء کی خلاف ورزی ہے۔


انھوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے 2012ء کے تعلق سے یہ بھی لکھا تھا کہ ایئرانڈیا کو دی جانے والی حج کرایہ کی سبسڈی دس سال میں دھیرے دھیرے ختم کی جائے، مگر کس قانون کے تحت 2018ء میں یہ سبسڈی بند کردی گئی، ساتھ ہی ساتھ سپریم کورٹ کا فیصلہ یہ بھی تھا کہ جوسبسڈی کی رقم جو ایئرانڈیا کو دی جاتی تھی وہ 2011ء میں چھ سو پچاسی کروڑ تھی اور وہ مسلم تعلیم اور ان کے سوشل ویلفیئر پرخرچ کیا جائے مگر اب تک کسی بھی ذرائع سے یہ پتہ نہیں چل پایا ہے کہ وہ رقم اب تک کہاں خرچ کی گئی؟

انہوں نے دعوی کیا کہ حج ایکٹ 2002ء میں یہ صاف لکھا ہے کہ حج کمیٹی آف انڈیا میں 9 ممبر صوبائی حج کمیٹیوں سے چن کرپورے ملک سے آئیں گے اور 7 ممبر مرکزی حکومت نام نیشن کرتی ہے اور تین ممبر آف پارلیمنٹ بھی ہوتے ہیں جس میں دو لوک سبھا اور ایک راجیہ سبھا کے ممبر ہوتے ہیں۔واضح رہے کہ حج کمیٹی ایک مذہبی ادارہ ہے اس لیے ایکٹ 2002ء میں صاف صاف لکھا ہے مرکزی حکومت جو 7 نام پیش کرے گی، اس میں سے 3علماے دین ہوں گے جس میں ایک شیعہ اور 2 سنی مسلمان ہوں گے۔


اعظمی نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ جب 2006ء میں حج کمیٹی آف انڈیا تشکیل ہوئی تھی تو کمیٹی میں تینوں نام سنی علماء کے نام نیٹ ہوگئے تھے، پہلا مولانا معظم نائب امام فتح پوری جامع مسجد دہلی، دوسری مولانا بلال احمد رائے بریلی، تیسرا مولانا انظر شاہ کشمیری (اللہ جنت نصیب کرے) اس وقت کے جوائن سکریٹری سنجے سنکھ صاحب کو جب پتا چلا کہ یہ غلطی ہوگئی ہے اور شیعہ علما چھوٹ گئے ہیں تو مولانا انظر شاہ کشمیری کااستعفیٰ لیا گیا، ان کی جگہ شیعہ علماء مولانا امتیاز حیدر جواعظم گڑھ کے رہنے والے ہیں جو بنگلور میں رہتے ہیں ان کو نام نیٹ کیا گیا۔

اعظمی نے کہا کہ 9جون 2016ء میں جو حج کمیٹی آف انڈیا بنائی گئی جو وزارت خارجہ نے بنائی تھی مگر مرکزی وزیر مختار عباس نقوی کی نگرانی میں بنی تھی۔ جس میں شیعہ عالم دین کی جگہ ایک بوہرہ عالم دین کو دی گئی، مگر دو سنی علماؤں کی نمائندگی غائب کردی گئی، اس طرح ایکٹ 2002ء کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔